کوئلہ کی کالک میں پھنستی جارہی ہے کانگریس


کوئلہ بلاک الاٹمنٹ کے معاملے میں کچھ گھوٹالوں کی پرتیں کھلتی جارہی ہیں ۔ کانگریس نے سوچا تھا کہ بھاجپا کو وہ گھیر کر گھوٹالے کی مار کو اس کی طرف گھما دے گی اور اپنے کو اس کی آنچ سے بچا لے گی پر سی بی آئی نے جس ڈھنگ سے کارروائی شروع کی ہے اس سے تو یہ ہی لگتا ہے کہ کانگریس اور اس یوپی اے سرکار کی مصیبت بڑھتی جارہی ہے۔ این ڈی اے سرکار اور بھاجپا سرکار والی ریاستوں میں ان کے اپنے لوگوں کو فائدہ ملنے کی بات کانگریسی زور شور سے کہہ رہے تھے۔ بھاجپا صدرکے ایک قریبی ایم پی کا بھی نام اچھالا گیا۔ لیکن جو نام کھل کر سامنے آرہے ہیں وہ زیادہ تر کانگریسیوں اور ان کے حامتیوں کے ہیں۔ معاملہ اب یہ نہیں ہے کہ کیگ نے اپنی رپورٹ میں امکانات پر اندازہ لگایا؟ اس پر تکنیکی بحث کی جاسکتی ہے۔ معاملہ تو یہ ہے کہ کوئلہ الاٹمنٹ میں کیا حقیقت میں بڑا گھوٹالہ ہوا تھا اور ہوا تھا تو اس میں فائدہ کس کو پہنچا؟ کانگریس کی طرف سے صفائی دیتے کپل سبل یا سلمان خورشید یا دوسرے نیتا اس بات سے انکار نہیں کرپارہے ہیں کہ ان نیتاؤں کو ان کے رشتے داروں اور ان کی کمپنیوں کو الاٹمنٹ سے نامناسب فائدہ پہنچایا گیا۔ اب تک جو نام سامنے آئے ہیں ان میں خاص ہیں وجے درڑا(کانگریس) ان کی کمپنی جے ایل ڈی یوت مال کو 9 کروڑ 90 لاکھ ٹن کا بھنڈار الاٹ ہوا ۔ دوسرا جو نام آرہا ہے وہ ہے کیندریہ منتری سبود کانت سہائے، وہ منموہن سرکار میں وزیر سیاحت ہیں، ان کی کمپنی ایل کے ایس اسپات کو کوئلہ بلاک نمبر تین مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں 26 کروڑ 30 لاکھ ٹن کا بھنڈار الاٹ ہوا۔ تیسرا نام راشٹریہ جنتا دل( آر جے ڈی) کیندریہ منتری رہ چکے اور لالو یادو کے قریبی پریم چندر گپتا کا ہے۔ ان کی کمپنی آئی ایس ٹی اینڈ پاور کو کوئلہ بلاک نمبر1 میں مہاراشٹر میں 7 کروڑ10 لاکھ ٹن کا الاٹمنٹ ہوا۔ ایک اور نام ڈی ایم کے نیتا وزیر مملکت اطلاعات و نشریات ایس جگت رچھون کا آیا ہے۔ ان کی کمپنی جے آر جنگت پرائیویٹ لمیٹڈ کو کوئلہ بلاک نمبر1 میں اڑیسہ میں بلاک الاٹمنٹ ہوا۔ ان کو کتنا بھنڈار ملا یہ ابھی تک پتہ نہیں چلا۔ ایک اور نام اجے سنچیتی کا ہے جو ایک بزنس مین اور نتن گڈکری کے قریبی ہیں، کا آیا ہے۔ ان کی کمپنی ایس ایم ایس انفرا اسٹرکچر کو کوئلہ بلاک نمبر 1 میں چھتیس گڑھ میں بھنڈار ملا۔یہ بھنڈار کتنا ہے یہ ابھی پتہ نہیں چلا ہے۔ ایک دستاویز کے مطابق کانگریس ایم پی نوین جندل کو سارے قانونوں کو طاق پررکھ کر کوئلہ بلاک الاٹ کیا گیا۔ خاص بات یہ ہے کہ کوئلہ بلاک کو پانے کی سرکاری نورتن کمپنی پول انڈیا لمیٹڈ نے بھرپور کوشش کی لیکن اسے واپس جانے کو کہہ دیا گیا۔ ایک انگریزی اخبار ’دینک ہندو‘ نے ایک سنسنی خیز پردہ فاش کیا ہے ۔ کوئلہ بلاک الاٹمنٹ گھوٹالے کی روز ادھڑ رہی پرتوں میں چار میڈیا گھرانوں کے ہاتھ میں کالے نظر آرہے ہیں۔ اخبار نے سرکاری ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ کم سے کم تین پرنٹ میڈیا اور ایک الیکٹرانک چینل کو کوئلہ بلاک الاٹمنٹ سے نام ہوا، جو یہ سنسنی خیز انکشاف ہوا ہے کہ ان کمپنیوں نے کوئلہ بلاک حاصل کرنے کے لئے فراڈ کمپنیاں بنائیں تاکہ اس کا پردہ فاش نہ ہوسکے کے الاٹمنٹ پروسیس میں ان میڈیا گھرانوں کو سیدھا فائدہ ملا۔ اس میں سے ایک پرشاسن نے تو ارجا کمپنی ہی بنا ڈالی اور اسی کے سہارے اسے کوئلہ بلاک ملا۔ کوئلہ منترالیہ کے ایک سینئر افسر نے کہا کہ فی الحال معاملے کی جانچ سی بی آئی کررہی ہے اور ممکنہ ترجیحی کرنے کے دوسرے مرحلے میں وہ عملی طور پر شکایت کی درج کرسکتی ہے۔ بی جے پی کے راشٹریہ سچیو مریٹ سمیا نے تو کوئلہ منتری شری جے پرکاش جیسوال کے سنسدیہ چھیتر کانپور میں جاکر الزام لگایا تھا کہ انہوں نے اپنے رشتہ دارو ں کو 9 کول بلاک الاٹ کئے اور بعد میں ان میں سے 6 بلاک کانگریس نیتاؤں کو بیچ دئے۔ انہوں نے 4 ہزار صفحوں کے دستاویز شکروار کو ممبئی میں سی بی آئی کو سونپے ہیں۔ جیسا میں نے کہا کہ پرتیں کھلتی جارہی ہیں اور اس حمام میں کئی ننگے ہوں گے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!