ہندوستانیوں کی رگ رگ میں بسا ہے سونا


ایک زمانہ تھا جب بھارت کو سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا۔ اس کی وجہ تھی بھارت اتنا خوشحال تھا کہ دنیا ہمیں سونے کی چڑیا کہا کرتی تھی۔ سونے کی للک تو آج بھی بھارت میں بہت ہے پتہ نہیں بھارت میں کتنا سونا ہے؟ ہر گھر میں کھانے کے لئے ضروری سامان نہ ہو لیکن سونے کے زیورات ضرور مل جائیں گے۔ اس کے پیچھے ایک وجہ سکیورٹی ہے۔ بڑے بوڑھے کہا کرتے تھے کہ گھر میں سونا آڑے وقت میں کام آتا ہے اس لئے سونے کو برے وقت کیلئے بیمے کے طور پر رکھا جاتا ہے۔ لیکن سونے کی مانگ نے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ دئے ہیں اور سونا اتنا مہنگا ہوگیا ہے کہ وہ32 ہزار روپے کی قیمت کی اونچائی چڑھ بیٹھا ہے۔ سونا ریکارڈ پر ریکاڈر بناتے ہوئے رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ بیرونی ممالک میں آئی تیزی قومی راجدھانی کہ صرافہ بازار میں سنیچر کے روز32450 روپے فی دس گرام کی نئی چوٹی پرپہنچ گیا ہے۔اسی طرح چاندی2100 روپے سے چھلانگ لگا کر 61800 روپے فی کلو ہوگئی ہے۔ بڑھتے افراط زر سے اپنے پیسے کو محفوظ رکھنے کے مقصد سے سرمایہ کار سونے کی خرید پر ٹوٹ پڑے ہیں نتیجہ نیویارک میں بین الاقوامی بازار میں پیلی دھات 34 ڈالر کا اچھال آیا ہے۔ یہ اس سال فروری کے بعد سے اس میں آئی سب سے بڑی تیزی مانی جاتی ہے۔ گھریلو بازار میں بھی پوری طرح سے یہ تیزی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ آگے داموں کے اور بڑھنے کا اندیشہ ہے کیونکہ اگلے ماہ تہواری سیزن شروع ہونے والا ہے اور اسٹاک پہلے سے ہی جمع کرنے میں دوکاندار جٹ گئے ہیں۔ ایسا کیا ہے سونے میں؟ مانا یہ نایاب ہے لیکن اتنا نہیں جتنی حکمرانوں میں ایمانداری ہے۔ وہ سونا پچا بھی لیتے ہیں لیکن سونے کے بسکٹ چائے میں ڈبوکر کھا نہیں سکتے۔ سونے کے پلنگ پر سنہرے خواب آئیں گے یہ ضروری نہیں۔ اکثر کھلنائکوں کو دانتوں میں چمکنے والے سونے کی بتتیسی کیوں کھلی رہتی ہے؟ پرانی کہانیوں میں یونانی راجہ میڈوف کو یہ وردان تھا کہ وہ جس چیز کو چھوتا وہ سونے کی ہوجاتی تھی لیکن وہ بھوک سے ہی مرا۔ عمر زیادہ ہونے پر چاہتے ہوئے بھی من پسند کھانے کو ہاتھ نہیں لگا پاتے۔ ہندوستان میں مریادہ پرشوتم کی ایودھیا ان کے کھڑاؤں پر کھڑی رہی اور سونے کی لنکا چرمرا کر گر گئی۔ تاریخ کی یہ سطریں ہی بھارت سونے کی چڑیا ہوتا تھا۔ تعظیم ہے تیمور لنک سے لیکر نادر شاہ تک سونے کی تلاش میں آتے تھے۔ بہت خون بہاتے اور لوٹ کے لے جاتے تھے۔ سونے کے مندر ، سونے کی مورتیاں، زیورات اور سونے کی زنجیریں۔ دنیا کے کل گھریلو پیداوار میں ہماری حصہ داری پانچ فیصد ہے لیکن سونے کی کھپت25 فیصد ہے۔ خستہ اقتصادی حالت ہونے کے بعد بھی پچھلے سال بھارت نے 1067 ٹن سونا خریدا۔ڈالرکے سامنے ہماری دمڑی کی چمڑی نکل گئی۔ ماہر اقتصادیات کہتے ہیں جب جب اقتصادی بحران کھڑا ہوتا ہے لوگوں کا کاغذ کے نوٹوں پر سے بھروسہ گھٹ جاتا ہے اور سونے کا سکہ من پسند بن جاتا ہے۔ درآمد شدہ دسوں ٹن سونے میں 720 ٹن ہم نے پہن لئے ہیں باقی لاکر میں بند ہیں۔ سرمایہ کاری میں جو دام میں بڑھتا ہے کام میں نہیں۔ کمربند کا سونا کسی کو روزگار نہیں دیتا۔ زمین سے نکلنے والا ہر ایک ٹن سونا ایک آدمی نگل لیتا ہے۔ درجن بھر کو اپاہج کردیتا ہے۔ ان سب کے باوجود بھارت میں سونے کی مانگ مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ سونا آج تیس ہزاری ہوگیا ہے۔ مزیدار بات یہ ہے کہ یہ قیمت کہاں جاکر ٹھہرے گی یہ آج کوئی نہیں بتا سکتا۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟