سہما امریکہ:9/11 کے بعد دوسرا بڑا حملہ


منگل کے روز امریکی تاریخ کے سب سے خوفناک آتنک وادی حملے 9/11 کی برسی تھی۔ نیویارک میں زیروگراؤنڈ دی پینٹاگن ،پینسلوانیا اور واشنگٹن ڈی سی نے اس خوفناک حملے کی گیارہویں برسی پر تین ہزارلوگوں کو خراج عقیدت پیش کیا۔11 ستمبر2001 کو ہوئے آتنکی حملوں کی برسی پر سادگی سے پروگرام منعقد کئے گئے۔جس وقت امریکہ 9/11 کے غم میں ڈوبا ہوا تھاہزاروں میل دور واقع دیش لیبیا کے شہر بین غازی میں امریکی سفارتخانے پر ایک زبردست حملہ ہورہا تھا۔9/11 حملوں کے بعد اگر یہ کہا جائے کہ یہ امریکہ پر دوسرا بڑا حملہ تھا تو شاید غلط نہ ہوگا۔ ہزاروں مظاہرین نے راکٹوں اور خود کار ہتھیاروں اور بموں سے امریکی قونصل خانے پر حملہ بول دیا۔ یہ اتنا خوفناک تھا کہ لیبیا میں امریکی سفیر کرسٹوفر اسٹیون اور تین دیگر امریکی اسٹاف کے لوگ مارے گئے۔ کرسٹوفر منگلوار کو لیبیا کے مشرقی شہر بین غازی گئے تھے۔سفیر سفارتخانے میں موجود تھے جب ہزاروں مظاہرین نے اس پر حملہ بول دیا۔ مظاہرین پیغمبر اسلام کے خلاف بنائی گئی ایک فلم سے ناراض تھے۔ دراصل اس فلم کی وجہ سے ہی فساد بھڑکا۔ یوٹیوب پر اس کا 14 منٹ کا ٹریلر جاری ہوا تھا۔ الزام ہے کہ اس میں پیغمبر صاحب کو غلط طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔ کیلیفورنیا کا رہنے والا ایک شخص ملڈرسیم کاسلے اس کا پروڈیوسر ،ڈائریکٹر ہونے کا دعوی کرتا ہے وہ خود کو اسرائیلی بتاتا ہے لیکن اسرائیلی حکومت نے اس سے کوئی تعلق ہونے سے انکار کردیا ہے۔ نیوز چینل الجزیرہ نے لیبیا کے وزارت داخلہ کے حوالے سے بتایا کہ بندوقوں سے مسلح سینکڑوں مظاہرین نے فائرنگ کی اور سفارتخانے پر راکٹ لانچروں سے حملہ کیا۔ اس کی وجہ سے لیبیائی سکیورٹی عملے سے مڈبھیڑ ہوئی۔ مظاہرین نے سفارتخانے میں آگ لگادی۔ سفیر اسٹیون سفارتخانے میں گھرے لوگوں کو بچانے کے لئے جب پہنچے تو راکٹ آکر گرے اور راکٹوں کی وجہ سے ان کی موت ہوگئی۔ اس سے پہلے مصر کی راجدھانی قاہرہ میں بھی فلم کو لیکر اسلامی مظاہرین نے امریکی سفارتخانے پر مظاہرہ کیا۔ مسلم برادر ہڈ کے ورکر سفارتخانے کی دواروں پر چڑھ گئے اور وہاں امریکی جھنڈے کو اتار کر اسلامی جھنڈا لگادیا۔ کرسٹوفر اسٹیون دوسرے امریکی سفیر ہیں جو اس طرح کے حملے میں مارے گئے تھے۔ اس سے پہلے افغانستان میں امریکی سفیر ایڈولف ڈفس کی کابل میں 1979 ء میں موت ہوگئی تھی۔ عربی اور فرانسیسی بولنے والے امریکی سفیر کرسٹوفر اسٹیون لیبیا میں انقلاب کے گواہ تھے۔ پچھلے سال لیبیا میں قزافی حکومت کے خلاف جو بغاوت ہوئی تھی بین غازی اس کے مرکز میں تھا۔ اسٹیون نے کہا تھا مجھے فخر ہے کہ انقلاب کے دوران میں وہاں سفیر رہا۔ لیبیائی لوگوں کو حق مانتے ہوئے دیکھا تو میں حیرت میں پڑ گیا۔ حملے میں دو مرین فوجی اور ایک وزارت خارجہ کا افسر مارے گئے تھے۔ مظاہرین کے مطابق القاعدہ سے وابستہ تنظیم انصارالشرعیہ کے لوگوں نے مشینی بندوقوں، راکٹ، گرینیڈ رائفلوں سے حملہ کیا تھا۔قزافی کے حمایتی بھی حملہ کرنے والوں میں شامل تھے۔ صدر براک اوبامہ نے کرسٹوفر اسٹیون کو ایک ہمت والا نمائندہ بتایا۔ ہم ان کے خاندان کے ساتھ ہیں اور ان کے کام کو آگے بڑھانے کے لئے دوگنی طاقت لگادیں گے۔ امریکہ میں یہ چناوی سال ہے۔ صدر براک اوبامہ کے لئے یہ ایک بڑی چنوتی ہے۔ اسامہ بن لادن کو مارنے کا سہرہ اس حملے سے کچھ پھینکا ضرور پڑ جائے گا۔دیکھنا یہ ہے کہ حملے کا امریکہ کیا جواب دیتا ہے۔ ابھی یہ صاف نہیں ہے کہ بین غازی اور قاہرہ کے حملے کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے لیکن سی این این کے مطابق قاہرہ میں امریکی سفارتخانے کی سیڑھیوں سے ملے ایک کالے رنگ کے جھنڈہ پر لکھا تھا ’’اللہ کے سوا کوئی دوسرا خدا نہیں ہے اور محمدان کے پیغمبر ہیں‘‘۔ عام طور پر القاعدہ ہی ایسے نعروں کا استعمال کرتا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ دو دن پہلے ہی امریکی وزیر دفاع لیون پینیٹا نے خبردار کیا تھا کہ القاعدہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ 9/11 حملے کی برسی پر القاعدہ نیتا ایان الظواہری نے ویڈیو سندیش جاری کیا ہے۔ القاعدہ کی سائٹ پر ڈالے گئے ویڈیو میں اس نے دعوی کیا کہ اس کے جنگ بازوں نے عراق میں امریکہ کو ہرادیا ہے۔ سچ سامنے آیا ہے اورجھوٹ ختم ہوا۔57 منٹ کے ویڈیو میں لادن کے ترجمان آدم احسان و دیگر القاعدہ لیڈروں کے بیان ہیں۔ امریکی عوام ایک بار پھر اوبامہ انتظامیہ سے سوال کرے گی کہ آخر امریکی خفیہ ایجنسیاں کیا کررہی تھیں؟ کیا سی آئی اے کو بین غازی میں اتنے بڑے حملے کی بھنک تک نہیں لگی؟ ایک بار پھر سی آئی اے فیل ہوگیا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟