دلی والوں کو اب اور بجلی کا جھٹکا


راجدھانی کے باشندے بجلی کے بلوں سے پریشان ہیں ۔ انہیں سمجھ میں نہیں آرہا ہے یہ کیا ہورہا ہے؟ ہر کوئی بجلی کی کھپت کم کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ باوجود اس کے بجلی کا کرنٹ بڑھتا جارہا ہے۔ بجلی کمپنیوں کے پاور گیم کی وجہ سے صارفین کو بجلی کم خر چ کرنے پر بھی زیادہ بل ادا کرنا پڑ رہا ہے اور آج کے زمانے میں بجلی کے بغیر گذارا بھی نہیں ہے۔ سب کچھ بجلی پر چلتا ہے کم کرو تو کیا؟ بجلی کے دام کے مطابق آپ اگر ایک مہینے میں200 یونٹ سے کم بجلی خرچ کریں گے تو فی یونٹ3.70 پیسے دینے ہوں گے اور اس میں سرکار ہر یونٹ پر 1 روپے کی رعایت بھی دیتی ہے۔ لیکن اگر خرچ200 یونٹ سے زیادہ ہے اور ماہانہ 400 یونٹ سے کم ہے تو فی یونٹ 4.80 پیسے اور اس سے زیادہ بجلی کا خرچ کرنے پر 6.40 پیسے دینے پڑیں گے لیکن بجلی کا بل دو مہینے کا ایک ساتھ آتا ہے۔اگر آپ نے ایک مہینے میں 195 یونٹ خرچ کئے ہیں اور دوسرے مہینے 200 یونٹ تک تب بھی آپ کو پہلے مہینے کی یونٹ کے لئے 4.80پیسے چکانے پڑرہے ہیں کیونکہ دو مہینے کی کل یونٹ485 ہے جسے بجلی کمپنی ہر مہینے 242یونٹ مان کر پیسہ وصولتی ہے۔ آر ڈبلیو اے کے نمائندوں کے مطابق اگر ہر صارفین سے 50 روپے سے بھی زیادہ وصولہ جارہا ہے تو 25 لاکھ صارفین سے یہ کمپنیاں 10 سے15 کروڑ روپے فاضل وصول رہی ہیں اور یہ خوردہ لوٹ ہول سیل فائدہ جیسا ہے۔ کمپنیوں کے پاس ایسی تکنیک ہے کہ وہ ہر دن خرچ ہوئی بجلی کا حساب دے سکیں لیکن جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا جارہا ہے۔موبائل کمپنیاں جس طرح آئٹ مائٹڈ بل دیتی ہیں اسی طرح بجلی کمپنیوں کو بھی بل دینا چاہئے۔ انہوں نے کہا ابھی جون کے کم دام کی بجلی بھی جولائی کے مہنگے دام کے ساتھ جوڑی جارہی ہے ایسے ہی بجلی کمپنیاں ہیرا پھیری کرتی ہیں۔ مشرقی دلی آر ڈبلیو اے فیڈریشن کے صدر انل باجپئی نے کہا کمپنیوں کو ہرصارفین کو اس کے بل کا پورا حساب دینا چاہئے۔ کمپنیاں کسٹومر کے سلیب کے چکر میں الجھا کر موٹا منافع کما رہی ہیں۔دلی بجلی کی شرحیں بڑھائی جانے کے بعد تقسیم کمپنیوں کے ذریعے بھاری بھرکم رقم کے بل بھیجے جانے سے جہاں بجلی صارفین پریشان ہیں وہیں بھاجپا اور کانگریس کے ممبران بھی کم پریشان نہیں ہوں گے۔ 
چناوی برس ہونے کے چلتے انہیں ڈر ستانے لگا ہے کہیںیہ اشوچناؤ پر بھاری نہ پڑ جائے۔ بھاجپا ممبر اسمبلی جہاں بجلی تقسیم کمپنیوں کی کھل کر مخالفت کررہے ہیں وہیں کانگریس کے ممبران دبی زبان سے بجلی کمپنیوں کی منمانی سے پریشان ہیں۔ کانگریسی ممبران نے اس کی شکایت وزیر اعلی شیلا دیکشت سے بھی کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کمپنیوں کے ذریعے بجلی کے دام میں تبدیلی لائی جائے اس سے پریشانی ہورہی ہے۔پہلے جو سلیب کے حساب سے بھیجا جاتا تھا اسے ختم کردیا گیا ہے۔ پہلی 200 یونٹ خرچ ہونے اور اس کے بعد کی یونٹ آنے پر سبھی یونٹوں کا بل بڑھی شرحوں سے وصولہ جارہا ہے۔ ممبران کی تجویز تھی بل پہلے کی طرح سلیب کے حساب سے بھیجے جائیں اور 200 یونٹ کی حد بڑھائی جائے تاکہ لوگوں کو زیادہ پریشانی نہ ہو۔ اس سے صارفین پریشان ہیں وہ ادائیگی نہیں کرتے یا کرتے ہیں تو ان کا سارا بجٹ بگڑ جاتا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟