گٹکھے پر دلی حکومت نے پابندی تو لگادی پر عمل کیسے ہوگا


حکومت دلی نے پیر کو گٹکھے پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ دلی میں اب گٹکھا نہ تو بک سکے گا اور نہ ہی بنے گا۔ سرکار نے گٹکھا اور اس سے جڑی چیزوں کی پیداوار اور بکری اور نمائش اور لانے لیجانے اور ذخیرے پر پابندی لگادی ہے۔ پڑوسی ریاست ہریانہ نے15 اگست کو ہی گٹکھے پر پابندی لگا دی تھی۔ گجرات نے11 ستمبر سے ریاست میں گٹکھے کو بیچنے ، اس کا ذخیرہ کرنے یا تقسیم کرنے پر پابندی عائد کردی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں گٹکھا صحت کے لئے انتہائی نقصاندہ ہے۔ گٹکھا کھانے سے نہ صرف دانت خراب ہوتے ہیں بلکہ کینسر بھی ہوتا ہے۔ گٹکھے میں موجودہ تمباکو و کیمیکل جسم پر برا اثر ڈالتے ہیں۔ کینسر ماہرین کے مطابق سر اور گلے کے کینسر سے بیماری میں سے زیادہ تمباکو کھانے کی عادت سے لوگ کینسر کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ سگریٹ نوشی سے بھی زیادہ خطرناک ہے کیونکہ گھنٹوں تک ہمارے منہ کے اندر رہتا ہے۔ ڈاکٹر بتاتے ہیں کہ بھارت میں تمباکو یعنی گٹکھا یا کھینی کے طور پر تمباکو کھانے کا زیادہ چلن ہے۔ یہ ہی وجہ ہے دیش میں سر اور گلے کے کینسر کے مریضوں میں تیزی آرہی ہے اور یہ 90 فیصدی تمباکو کی وجہ سے ہورہے ہیں۔ ایک کینسر ماہر ڈاکٹر سدرشن کی مانیں تو گٹکھے میں صرف تمباکو نہیں ہوتا بلکہ کئی طرح کے کیمیکل ہوتے ہیں جو کینسر کے لئے ذمہ دار ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ حکومت محض قانون بنانے سے گٹکھے پر پابندی لگا پائے گی؟ سب سے پہلے بات دلی سرکار جس کے غذائی ملاوٹ محکمے کو اس پابندی کے خلاف کارروائی کرنے کو کہے گی اس کے پاس کیا اتنے ملازم ہیں کہ وہ سختی سے دلی میں پابندی پر عمل کراسکے؟ ہماری معلومات کے مطابق اس محکمے میں محض70 ملازم ہیں۔وہیں راجدھانی میں دو درجن برانڈ کے گٹکھے بنانے والی تقریباً30 کمپنیاں ہیں اور روزانہ دو کروڑ سے زیادہ گٹکھے اور دیگر تمباکو مصنوعات کی کھپت ہوتی ہے۔ دلی میں قریب دو ہزار بڑے اور منجھولے سطح کی دوکانوں پر گٹکھے کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ راجدھانی میں ایک لاکھ سے زائد پنواڑی و چھوٹے چھوٹے کھوکھوں سے گٹکھے کی خوردہ بکری ہوتی ہے ایسے میں اتنے کم ملازمین کے بھروسے گٹکھے پر پابندی کیسے لگے گی؟ سرکار کو گٹکھے پر ٹیکس کے ذریعے کروڑوں روہے کا محصول ملتا ہے۔ اس پر سرکار نے 20 فیصدی ویٹ بھی لگا رکھا ہے جبکہ پان مسالے پر ساڑھے بارہ فیصدی ویٹ لگا ہوا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دلی میں مہینے کا قریب100 کروڑ روپے کا کاروبار ہوتا ہے۔ پان مسالہ گٹکھے کا سب سے بڑا کاروبار دلی کے علاقے نیا بانس سے ہوتا ہے۔ سرکار کے فیصلے سے تاجر خاصے ناراض ہیں حالانکہ وہ گٹکھے کے نقصان سے بھی واقف ہیں ۔ یہاں کے ایسوسی ایشن کے جنرل سکریٹری اشوک کمار جین نے بتایا ملک کی تجارت تہس نہس کرنے کے لئے اور غیر ملکی سگریٹ کمپنیوں کو بڑھاوا دینے کے لئے یہ کھیل کھیلا جارہا ہے۔ ہماری رائے میں سارے حالات کو دیکھتے ہوئے پابندی لگانا شاید مسئلے کا حل نہیں ہوگا۔ ضرورت ہے صارفین کو بیدار کرنے کی۔ پابندی سے صرف کالا بازاری بڑھے گی۔ کہیں اس پابندی کا حشر بھی پبلک مقامات پر سگریٹ نوشی ممنوع کی طرح نہ ہو؟ پابندی لگانا کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہوتا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟