راہل گاندھی کی قابلیت ، قیادت و اہلیت پر اٹھے سوال


وزیراعظم منموہن سنگھ کو ناکارہ کہنے والے مغربی اخبار اب کانگریس کے نوجوان لیڈر راہل گاندھی کی قابلیت پر سوالیہ نشان لگا رہے ہیں۔ مشہور اخبار ’دی اکنامسٹ‘ نے کانگریس سکریٹری جنرل راہل گاندھی کی قابلیت پر سوال اٹھاتے ہوئے پوچھا کہ کچھ سال پہلے انہوں نے بیان دیا تھا کہ جب بھی وہ نوجوانوں سے ملتے ہیں تو وہ ایک ہی سوال پوچھتے ہیں کہ وہ بڑے ہوکر کیا بننا چاہتے ہیں لیکن میگزین نے اپنے مضمون میں اس بات پر ہی سوال اٹھا دیا ہے کہ راہل کو خود معلوم نہیں وہ کیا بننا چاہتے ہیں، اور کیوں بننا چاہتے ہیں؟ مضمون میں راہل کی شخصیت پر سوال اٹھاتے ہوئے انہیں کنفیوز اور ایک غیر سنجیدہ شخص بتایا ہے۔ ’دی راہل پرابلم‘ ٹائٹل سے شائع اس مضمون میں سوال کیا گیا ہے کہ راہل گاندھی کا نظریہ آخر کیا ہے۔ مضمون میں سوال یہ بھی اٹھایا گیا ہے کہ راہل گاندھی کیا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ بات کوئی نیتا جانتانہیں۔یہاں تک کہ راہل خود بھی نہیں جانتے۔ ہر کوئی راہل گاندھی کو پرموڈ کرنے میں لگا ہے انہیں اپنی ماں اور کانگریس صدر سونیا گاندھی کا جانشین مانا جاتا ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ 2014ء میں عام چناؤ کا پرچار شروع ہونے سے پہلے ہی وہ اپنی صلاحیت کی جھلک دکھائیں۔ ریاستوں میں ہوئے چناؤ میں بھی راہل نے پبلسٹی کا مورچہ سنبھالا تھا لیکن نتیجہ کوئی خاص نہیں رہا۔ مسئلہ یہ ہے کہ نہ تو راہل میں ابھی تک اعلی لیڈر شپ کی جھلک نظر آئی اور نہ ہی ان میں اپنے کام کو لیکر دیوانگی دیکھنے کو ملی ہے۔ مضمون میں آگے کہا گیا ہے کہ انا ہزارے کے انشن کے دوران جب بھی سونیا گاندھی بیرونی ملک کے دورہ پر گئی تھیں تب راہل کے پاس خود کو اچھا منتظم ثابت کرنے کا موقعہ ملا۔ لیکن وہ خاموش ہوکر کہیں چھپے رہے۔ پارلیمنٹ میں وہ اس مسئلے پر بولیں لیکن اس میں بھی وہ غلط صلاح دیتے نظر آئے۔ ادھر کولکاتہ میں سماجوادی پارٹی نے مرکز کی یوپی اے سرکار کو بے سمت قراردینے کے بعد کانگریس سکریٹری جنرل راہل گاندھی کو نشانہ بنایا ہے۔ کولکاتہ میں سپا کے دو روزہ قومی ایگزیکٹو اجلاس میں پیش سیاسی و اقتصادی تجاویز پر اخبار نویسوں سے بات چیت کرنے آئے پارٹی کے جنرل سکریٹری موہن سنگھ نے کہا کہ راہل گاندھی میں لیڈر شپ سنبھالنے کی صلاحیت نہیں ہے اور وہ مرکزی سرکار اور کرپشن کے سمندر میں ڈبکی لگا رہے ہیں۔راہل گاندھی کو گھیرتے ہوئے سپا کے ترجمان موہن سنگھ نے کہا کہ دیش بھر کے اخباروں و جریدوں و سیاسی مبصرین کا تجزیہ ہے کہ راہل گاندھی ملک گیر یا عوام سے مفاد عامہ سے وابستہ اشوز پر فیصلہ لینے میں نا اہل رہے ہیں۔ ویسے بھی دیش کے کسی بھی اشو یا مسئلے پر بولتے نظر نہیں آتے۔ جنتا سے جڑے کسی بھی معاملے کو انجام تک نہیں پہنچا پاتے تو دیش کی کمان کیسے سنبھال سکتے ہیں؟ پچھلے دو برسوں میں راہل گاندھی لوک سبھا میں چپ چاپ بیٹھے رہے جبکہ کئی حساس ترین موضوع پر بحث ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا گذشتہ دو برسوں میں ہمیں ایک بھی موقعہ نہیں ملا جب ہم یہ سنتے ہیں کہ کئی مسئلوں کا سامنا کررہے ملک سے وابستہ حساس معاملوں پر راہل نے پارلیمنٹ میں اپنی کوئی رائے رکھی ہو۔ جب کسی نے انہیں بولتے ہوئے سنا ہی نہیں کوئی یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ ان کے ہاتھوں میں دیش محفوظ ہے۔ بھاجپا تو ہمیشہ ایسے موقعوں کی تلاش میں رہتی ہے اور وہ بھلا کیسے پیچھے رہ سکتی ہے۔ بھاجپا کے ترجمان راجیو پرتاپ روڑی نے کہا مہنگائی ہو یا کرپشن کا اشو یا پھر کوئلہ بلاک الاٹمنٹ پر بحث چل رہی ہو ، ہم نے راہل کو بولتے نہیں سنا۔ یہاں تک کہ انہوں نے 2 جی اسپیکٹرم گھوٹالے پر بھی کچھ نہیں بولا۔ جس میں سابق وزیرمواصلات اے ۔راجہ کو جیل جانا پڑا تھا۔ انہوں نے کہا کوئلہ بلاک الاٹمنٹ کا اشو تقریباً ایک مہینے سے جاری ہے لیکن راہل نے خاموش رہنا ہی مناسب سمجھا۔ راہل برانڈ ہمیں تو کہیں نظر نہیں آیا۔ کانگریس میں راہل کا بڑا رول آنے سے متعلق پوچھے جانے پر ایک سوال میں روڑی نے کہا جب 42 سال میں کوئی فٹ نہیں بیٹھ رہا ہے تو کیسے کہا جائے کہ52 سال میں وہ فٹ بیٹھے گا؟ کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ فیصلہ کانگریس کو ہی کرنا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ کیسی فٹ نیس کی بات کررہے ہیں تو انہوں ن نے جواب دیا سیاسی، انتظامی اور ذہنی۔ خبر ہے گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی کے خلاف کانگریس پوری طاقت جھونک رہی ہے لیکن اس مقابلے میں پارٹی سکریٹری جنرل راہل گاندھی کو آگے نہیں لائے گی۔ اترپردیش چناؤ کے نتیجوں سے سیاسی حقیقت کے پیش نظر کانگریس نے مودی بنام راہل کی بحث کو مسترد کردیا ہے۔ کل ملا کر راہل گاندھی کی صلاحیت کو لیکر سیاسی سوجھ بوجھ، سیاست میں دلچسپی سبھی طرح کے سوال اٹھائے جارہے ہیں۔ کانگریس یہ کہہ سکتی ہے کہ ہمیں کسی کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ہے لیکن جو سوال اٹھائے جارہے ہیں ان کے جواب و محاسبہ کانگریس پارٹی کو ہی کرنا ہوگا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟