منموہن سنگھ کی حالت پر رحم بھی آتا ہے اور مایوسی بھی


Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily
Published On 14th July 2011
انل نریندر
ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا جمہوری دیش ہے۔ اور جمہوریت میں وزیر اعظم سب سے بڑا ہوتا ہے۔ کم سے کم ہونا تو چاہئے لیکن جب ہم اپنے وزیر اعظم کی حالت کو دیکھتے ہیں تو ہمیں دکھ بھی ہوتا ہے اور مایوسی بھی۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے نہ تو جنتا کے چنے ہوئے وزیر اعظم ہیں اور نہ ہی سیاستداں۔ وہ غیر سیاسی شخصیت ہیں۔ یہ وہ خود بھی مان چکے ہیں۔ اب تو ان کے انتہائی قریبی لوگ بھی یہ کہنے لگے ہیں کہ وزیر اعظم منموہن سنگھ کے سابق ساتھی و پریس مشیر سنجے بارو جو ان کے طریقہ کار سے اچھی طرح واقف ہیں ، نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا ہے کہ منموہن سنگھ کے پاس کوئی سیاسی طاقت نہیں ہے۔ سنجے بارو کا تبصرہ نہ صرف وزیر اعظم بلکہ کانگریس صدر سونیا گاندھی کے لئے بھی پریشانی کا سبب بنے گا۔ جن کے ہاتھ میں اقتدار کی ڈور ہے اور جو ’’ریموٹ ‘‘سے سرکار کو چلا رہی ہیں۔ سنجے بارو منموہن سنگھ کے بہت بھروسے مند شخص تھے اور انہیں پریس سکریٹری کے طور پر واپس لانا چاہتے تھے لیکن 10 جن پتھ نے اپنی ٹانگ اڑادی اور اپنے بھروسے مند شخص ہریش کھرے کی تقرری وزیر اعظم کے پریس سیکریٹری کے طور پر کروادی۔ سنجے بارو نے نیوز چینل این ڈی ٹی وی کو دئے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ وزیر اعظم کے پاس سیاسی اقتدار نہیں ہے اور انہیں اپنی طاقت کا استعمال کرنا چاہئے جو سیاسی سسٹم کی پیچیدگی کے سبب ایسا نہیں کرپا رہے ہیں۔ وزیر اعظم صرف پارٹی کے سیاسی نیتا ہی نہیں بلکہ دیش کے لیڈر بھی ہیں اور ان کے پاس یقینی طاقت ہونی چاہئے تاکہ وہ کچھ مشکل فیصلے سرکار کی طرف سے کر سکیں۔ سنجے بارو کے معمولاتی رابطے میں رہے کچھ سینئر صحافیوں کے مطابق سنجے بارو منموہن سنگھ سے مسلسل ملتے رہے اور انہیں صلاح دی ہے کہ اپنی پوزیشن میں بہتری لائیں۔ کیونکہ وہ پہلے ہی جنتا کا اعتماد کھوچکے ہیں۔ سنجے بارو نے وزیر اعظم سے بھی یہ کہا ہے کہ اگر ان کی پوزیشن گرتی ہے ایسے میں سونیا گاندھی کیا کرسکتی ہیں۔
ڈاکٹر منموہن سنگھ کی حکومت اپنے وزراء تک ہی نہیں چلتی ۔اس کی تازہ مثال تب ملی جب ان کی کیبنٹ کے ایک وزیر مملکت نے ان کے احکامات کو نظر انداز کردیا۔ آسام میں ایک ٹرین پٹری سے اتر جانے کے ایک دن بعد وزیر اعظم منموہن سنگھ نے پیر کو ریل وزیر مملکت مکل رائے سے جائے حادثے پر جانے کو کہا تھا لیکن رائے نے ان کی بات نہیں مانی اور وہ وہاں نہیں گئے۔ ترنمول کانگریس کے لیڈر نے ان کی ہدایت پر توجہ دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم کے پاس وزارت کا چارج ہے ، نہ ہی ان کے پاس ۔ رائے نے کہا میں ریل منتری نہیں ہوں۔ وزیر اعظم ریل منتری ہیں۔ رائے نے کولکاتہ میں اخبار نویسوں سے کہا کہ میں تو بس تین وزیر مملکت میں سے ایک ہوں۔ وزیر اعظم ہی ریل منتری ہیں۔ رائے یہیں نہیں رکے انہوں نے یہاں تک کہہ ڈالا پٹری ٹھیک کردی گئی ہے اور معائنہ کرنے کے لئے وہاں کچھ بھی نہیں ہے۔ رائے نے اپنی پارٹی صدر ممتا بنرجی کے ساتھ جانا زیادہ ضروری سمجھا بہ نسبت وزیر اعظم کے حکم کی تعمیل کے؟ اب آپ ہی بتائیں کہ منموہن سنگھ کی حالت پر رحم بھی آتا ہے اور مایوسی بھی ہوتی ہے۔
Tags: Anil Narendra, Daily Pratap, Manmohan Singh, Rail Accident, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!