راہل کی پد یاترا رنگ لا رہی ہے بسپا میں بوکھلاہٹ
راہل گاندھی کی کسان سندیش یاترا ہر لحاظ سے کامیاب رہی۔ اپوزیشن پارٹیوں میں بھی اس یاترا کے اثر سے پیدا صورتحال پر غور و خوض کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ راہل گاندھی نے پد یاترا کرکے سبھی پارٹیوں کے لیڈروں کو دکھا دیا ہے کہ وہ جنتا کے درمیان جاکر ان کا دکھ درد بانٹنے کی ہمت رکھتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ کسی اور پارٹی کے کسی بھی لیڈر نے حال ہی میں ایسی پد یاترا نہیں کی؟ اپنے گھروں کے ایئر کنڈیشن کمروں میں بیٹھ کر سیاست کرنے والے لیڈروں کو اس نوجوان سیکٹریٹری جنرل نے یہ دکھا دیا کہ اگر آپ جنتا کے پاس جائیں گے تو وہ آپ کو سر آنکھوں پر بٹھا لے گی۔ کانگریس پارٹی کو اس پد یاترا کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ جو ورکر پچھلے دو دہائی سے گھربیٹھے ہوئے تھے وہ اب باہر سڑکوں پر آنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ پچھلی دو دہائی سے زیادہ ، جب سے پہلی بار کانگریس نے ملائم سنگھ یادو نے اتحاد کیا تھا ،تب سے کانگریس ورکر مایوس ہوکر گھر بیٹھ گیا تھا۔ اب اتنے برسوں بعد اسے تھوڑی امید کی کرن ضرور نظر آئی ہے اور وہ باہر سڑکوں پر آگیا ہے۔ اگر راہل نے ایسی ہی پد یاترا مشرقی اترپردیش و دیگر حصوں میں بھی کرلی تو کانگریس کو اس کا فائدہ ہوسکتا ہے۔اتر پردیش کی بڑی اپوزیشن پارٹی راہل کی پد یاترا کا سیاسی فال آؤٹ کا جائزہ کرنے میں لگ گئی ہیں۔ چاہے بسپا ہو یا سپا یا پھر بھاجپا۔ سبھی پارٹیاں پھر سے اپنی حکمت عملی بنانے پر کچھ حد تک مجبور ہوئی ہیں۔ کانگریس کا اہم مقابلہ بسپا سے ہونے والا ہے۔
بہن جی نے بسپا تنظیم کی چولیں کستے ہوئے حکمت عملی میں ردو بدل کی ہے۔ پارٹی کی حکمت عملی میں سب سے زیادہ سیٹ جیتنے کی دوڑ میں سپا کو مات دینے کے ساتھ کانگریس کے عروج کو روکنے کیلئے بھی خاص توجہ دی جائے گی۔ مایاوتی نے پارٹی تنظیم و عہدیداران کی مسلسل میٹنگوں کے سلسلے میں ایتوار کو پارٹی کے زونل کوآرڈینیٹروں کی میٹنگ میں کئی اہم فیصلے لئے۔ پارٹی تنظیم کو ریاستی حکومت کے بے شمار کارناموں کی تعریفیں اور پبلسٹی کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ پارٹی الگ الگ ذاتوں کے درمیان نئے سرے سے دبدبہ بنانے کی نئی کوشش کرے گی۔
سرو سماج کے لوگوں کو اور زیادہ جوڑنے اور مینڈیڈ بڑھانے کے لئے پارٹی کے سبھی ذمہ دار لوگوں کو ہدایتیں بھی دے دی گئی ہیں۔ اب بسپا کے ایجنڈے نے پردیش کے پسماندہ علاقوں مشرقی اترپردیش و بندیلکھنڈ اوپر آگیا ہے۔مانا جارہا ہے کہ راہل گاندھی کی پدیاترا و کسان پنچایب حکمت عملی کے اگلے حصے کے طور پر یہی دونوں علاقے ہیں۔ لہٰذا بسپا ان علاقوں میں اپنے سرو سماج کے تجزیوں کو پہلے سے ہی درست کرلینا چاہتی ہے۔ ایتوار کو مایاوتی نے جو ہدایات جاری کیں اس سے صاف نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اترپردیش میں جلد چناؤ ہوسکتا ہے۔ بہن جی نے سبھی عہدیداران کو صاف کہہ دیا ہے کہ وہ تیار رہیں، چناؤ کبھی بھی ہوسکتا ہے۔ وزیر اعلی کا کہنا ہے کہ کانگریس کو نشانے پر رکھیں۔ بدعنوانی، مہنگائی کے مسئلے کو لیکر اسے گھیریں۔ باخبر ذرائع کی مانیں تو تین گھنٹے تک چلی اس میٹنگ میں مایاوتی نے یہ تسلیم کیا کہ پارٹی کی ساکھ خراب ہوئی ہے۔ حالانکہ اس کیلئے انہوں نے باہر سے پارٹی میں آئے لوگوں کو ہی ذمہ دار مانا ہے۔ انہوں نے عہدیداران سے کہا کہ وہ جنتا کے درمیان جاکر یہ پروپیگنڈہ کریں کہ جو لوگ سرکار کی ساکھ خراب کررہے ہیں وہ بنیادی طور پر بسپا ئی نہیں ہیں۔ راہل گاندھی کی پد یاترا نے بسپا کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ کانگریس کی حکمت عملی یہ ہی ہے کہ 2012ء کے اسمبلی چناؤ میں مقابلہ بسپا اور کانگریس کے درمیان ہوگا، اور کانگریس کو اجیت سنگھ کی حمایت تو مل ہی جائے گی، ملائم سنگھ یادو سے بھی کوئی نہ کوئی سیٹنگ ہو ہی جائے گی۔
Tags: Anil Narendra, Bahujan Samaj Party, Bhatta Parsaul, Congress, Daily Pratap, Greater Noida, Mayawati, Rahul Gandhi, Uttar Pradesh, Vir Arjun
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں