کیبنٹ ردوبدل : پرانی بوتل میں نئی شراب


Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily
Published On 15th July 2011
انل نریندر
آخر کار وزیر اعظم منموہن سنگھ نے اپنی کیبنٹ میں کافی دیر انتظار کرا کر ردوبدل کر ہی دی ہے۔ وزیر اعظم نے اسے اپنی وزارتی کونسل کی آخری ردوبدل اعلان کرکے اس کی پائیداری کا اشارہ تو دے دیا لیکن دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ وہی پرانی بوتل میں نئی شراب ڈالنے کے برابر ہے۔ کھودا پہاڑ اور نکلی چوہیا ثابت ہوا ہے۔ چاروں طرف سے گھری منموہن سرکار سے امید کی جاتی تھی کہ وہ ایسی ردو بدل کریں گے جس سے آنے والے دنوں میں اس حکومت کی گرتی ساکھ اور بھروسے پر لگام لگے۔ امید تو یہ بھی کی جاتی تھی کہ اہم وزارتوں میں بھی ضروری تبدیلی کرنے کی ہمت دکھائیں گے۔جس سے منہ پھاڑتے مسائل سے نمٹنے کیلئے عزم نظر آئے۔ لیکن وزیر اعظم پھر لاچار سیاستداں و ریمورٹ سے چلنے والے وزیر اعظم ثابت ہوئے ہیں۔ نہ تو وزیر مالیات بدل سکے اور نہ ہی وزیر داخلہ۔ ہاں کچھ نئے نوجوان چہروں کوکیبنٹ میں ضرور شامل کیا گیا ہے جس میں راہل گاندھی کا بڑھتا اثر صاف جھلکتا ہے۔ ماحولیات وزارت سے جے رام رمیش کا تبادلہ صاف اشارہ کرتا ہے یہ حکومت محض صنعت کاروں کوخوش کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ جے رام رمیش کو دیہی ترقی وزارت دے کر اپنا سیاسی فائدہ دیکھ رہی منموہن سرکار کو ویدانتا ، کوسکو اور لواسا سمیت ماحولیات سے وابستہ تمام معاملوں میں بڑھتے کارپوریٹ ورلڈ کی مداخلت پر لگام لگانے والے وزیر کو ہٹانے کا جواب دینا پڑ سکتا ہے۔ کیبنٹ ردوبدل نے وزیر اعظم کے اتحاد کی اس سیاسی مجبوری کو بھی اجاگر کیا ہے جس کا ذکر انہوں نے مدیروں کے ساتھ کیا تھا۔ ڈی ایم کے کیلئے دو وزارت کے عہدے محفوظ رکھنے کے اتحادی دھرم بتا رہے منموہن سنگھ نے دراصل اسی اتحادی دھرم کا ثبوت دیا ہے۔ جیسے ممتا کے دباؤ میں ریل وزارت انہی کے نمائندے کو دے دی گئی ہے۔ بیشک وہ اس وزارت کے قابل ہوں یا نہ ہوں۔ وزیر اعظم کی یہ کیبنٹ ردوبدل محض سیاسی ضرورت کے حساب سے کچھ خالی جگہ بھرنے کی ایک کوشش کا آئینہ بن کر رہ گئی ہے۔ اس کا صاف سندیش تو یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم پر سونیا گاندھی کی بالادستی اور درمیانے طبقے کی سیاست بھاری پڑی۔ اس لئے وزارت داخلہ ،مالیات ، ڈیفنس اور خارجہ سمیت تمام بڑے محکمو ں میں ادھر ادھر کرنے کی وزیر اعظم کی چاہت کانگریس کے سیاسی کردار کے بیریئر کو توڑ نہیں پائی۔ اگر بینی پرساد ورما کو کیبنٹ سطح اور راجیو شکلا کو اس لئے شامل کیا گیا ہے کہ اتر پردیش میں اسمبلی چناؤ ہونے والے ہیں تو پنجاب کا کوئی نمائندہ کیوں نہیں لیا گیا۔ کیونکہ چناؤ تو پنجاب میں بھی ہونے والے ہیں۔ ویرپا موئلی کو وزارت قانون سے ہٹا نے کے پیچھے ان کی اپنی ذمہ داریوں کی صحیح طرح سے تکمیل نہ رہی ہے۔ کیا سرکار یہ چاہتی تھی کہ موئلی اس کے سارے غلط کاموں کا بچاؤ کرتے؟ اگر یہ وزیر اعظم کی کیبنٹ میں آخری ردوبدل ہے جیسا کہ انہوں نے خود کہا ہے تو اس کی امید کم ہی ہے کہ سرکار کا چال چلن بدلے گا اور کچھ بہتر ہونے کی امید رکھی جائے۔ اس ردوبدل کے ذریعے کوئی مثبت پیغام دینے کی کوشش کررہی ہے۔ مرکزی اقتدار کے لئے سب کچھ نہیں ہوسکتا ۔ دو نیتا تو وزارت میں حلف لینے نہیں پہنچے اور باقی میں ناراضگی کا لاوا پھوٹ گیا ہے۔ اس لیپا پوتی سے پتہ نہیں یوپی اے سرکار اور کانگریس پارٹی کو کتنا فائدہ ہوگا؟
Tags: Anil Narendra, Cabinet, Daily Pratap, Manmohan Singh, Prime Minister, Sonia Gandhi, UPA, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!