سلواجوڈوم، کویا کمانڈو توڑنے کا حکم
شاید چھتیس گڑھ میں سلواجوڈوم اور کویا کمانڈو کو توڑنے کے سپریم کورٹ کے حالیہ دئے گئے حکم کے پیچھے نظریہ یہ ہی رہا ہوگا کہ ماؤوادی ہوں یا کوئی دیگر علیحدگی پسند تنظیم اس سے لڑنے کیلئے حکومت قانون کا راستہ نہیں ترک کرسکتی۔ کویا کمانڈو کے تحت ایسے قبائلی نوجوانوں کو بھرتی کیا گیا ہے جو نہ تو اچھے پڑھے لکھے تھے اور نہ ہی انہیں کسی باقاعدہ سرکاری فورس کی طرح تربیت دی گئی اور صرف تین ہزار روپے مہینے کا بھتہ دے کر انہیں ماؤ وادیوں سے لڑنے میں جھونک دیا گیا۔ اس سے ایک طرف یہ لڑکے اور ان کے رشتے دار ماؤ وادیو ں کے نشانے پر آگئے ہیں دوسری جانب جائز طریقوں اور قانون کے تئیں جوابدہی سے ان کے ناواقفیت رہنے کی وجہ ان کی کارروائیوں سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے متعلق اکثر سوال کھڑے ہوتے تھے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ حکومت ماؤ وادیوں سے ایسے نہیں لڑ سکتی۔ لیکن سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا دوسرا پہلو بھی ہے کہ سب سے بڑی تشویش تو چھتیس گڑھ میں اسپیشل پولیس افسر (ایس پی او) جن کی تعداد تقریباً پانچ ہزار ہے کی سلامتی کو لیکر فکرمند ہوگئی ہے۔ چھتیس گڑھ انتظامیہ و پولیس افسران نے بتایا تقریباً 4800 اسپیشل پولیس افسر اب نکسلیوں سے کیسے مقابلہ کرپائیں گے۔ وہ نہتے ہو جائیں گے اور نکسلیوں کے لئے آسانی سے نشانہ بن سکتے ہیں۔ راجدھانی میں واقع پولیس ہیڈ کوارٹر میں ریاست کے سب سے زیادہ نکسلی متاثرہ علاقے بستر کے پولیس افسران کی میٹنگ میں جس میں بستر خطے کے سبھی ضلعوں کی پولیس سپرنٹنڈنٹ اور ڈائریکٹر جنرل پولیس و ریاست کے اعلی پولیس افسر شامل تھے۔ میٹنگ میں سپریم کورٹ کے حکم پر تعمیل کو لیکر غور و خوص ہوا۔ سبھی کی رائے تھی کہ جب ایس پی او کی تقرری کی گئی تب انہیں ٹریننگ دی گئی اور انہیں ہتھیار بھی دئے گئے۔ ریاست میں نکسلیوں کے خلاف لڑائی میں ایس پی او نے اہم کردار نبھایا اور کئی تھانوں میں ایس پی او کی بدولت ہی پولیس کو تب نقصان ہوا اور کچھ مقامات پرپولیس نے کامیابی حاصل کی۔ وہیں ایس پی او کے مقامی ہونے کے سبب وہ سکیورٹی فورس کے لئے ابھی تک مددگار ثابت ہوئے ہیں۔ ایس پی او وہاں کی مقامی بولی جانتے ہیں۔ وہاں کی جغرافیائی پوزیشن سے واقف ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ کون نکسلیوں سے ملے ہوئے ہیں اور کون نہیں۔ یہ ہی نہیں علاقے کے کویا کمانڈو کی تشکیل ہونے کے بعد نکسلیوں کے لئے یہ سب سے بڑے درد سے ثابت ہوئے ہیں اور نکسلی انہیں اپنا سب سے بڑا دشمن مانتے ہیں۔ ایسے میں اگر ان سے ہتھیار لئے جائیں تو ان کی سلامتی خطرے میں پڑجائے گی۔
چھتیس گڑھ کے علاوہ جھارکھنڈ، اڑیسہ اور آندھرا پردیش جیسی کئی اور ریاستیں بھی نکسلی تشدد سے بری طرح متاثر ہیں۔ لیکن چھتیس گڑھ کو چھوڑ کر سلواجوڈوم جیسا تجربہ اور کہیں نہیں ہوا۔ آندھرا پردیش میں اسپیشل فورس کی تعیناتی سب سے کارگر ثابت ہوئی ہے۔ اس طرح کی پہل پر کسی عدالت کو اعتراض نہیں ہے۔ سلواجوڈوم کو اگر سپریم کورٹ نے مسترد کیا ہے تو اس کی بنیادی آئینی ہے جو کام پولیس یا سکیورٹی فورس کا ہے اس میں شہریوں کو نہیں لگایا جاسکتا۔ ماؤوادی یا نکسلی مسئلے سے نمٹنے کے لئے حکومت ہند کی کوئی ٹھوس پالیسی نہیں ہے۔ اس ٹال مٹول والی پالیسی کی وجہ سے سکیورٹی فورس کو بھی یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ اس مسئلے سے کیسے نمٹے۔ سپریم کورٹ کا یہ حکم یقینی طور سے ان انسانی حقوق تنظیموں کی جیت ہے جو سلواجوڈوم کو منسوخ کروانے پر بہت دنوں سے لگی ہوئی تھیں۔ جہاں اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ حکومت کو سلامتی کے جائز اور آئینی طریقوں سے ہی ماؤ وادیوں سے نمٹنا بہتر ہوگا اور اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے پرائیویٹ ملیشیا (فوج) بنانا حل نہیں ہے۔ وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ حکومت کوئی دوررس و کارگر ماؤ وادی ، نکسلی تشدد سے نمٹنے کی ٹھوس پالیسی بنائے۔
Tags: Anil Narendra, Bastar, Chhattis Garh, Daily Pratap, Salwa Judam. Maoist, Supreme Court, Vir Arjun
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں