عامر خان تم نے ’’دہلی بیلی‘‘ فلم کیا سوچ کربنائی؟



Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily
Published On 10th July 2011
انل نریندر
پچھلے کئی دنوں سے عامر خان کی فلم ’’دہلی بیلی‘‘ کافی موضوع بحث ہے۔ فلم کے مقالے ، مناظر اور گانوں کو لیکر تنازعہ چھڑا ہوا ہے۔ میں نے آخر اس فلم کو دیکھنے ، سمجھنے کیلئے ہمت کی۔ میں نے فلم دیکھی اور مجھے فلم دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔ مجھے عامر خان سے ایسی بے ہودہ فلم بنانے کی کبھی امید نہیں تھی۔ سنیما ہالمیں بیٹھ کر فلم دیکھنا مشکل ہوگیا۔ فلم کی نہ تو کوئی کہانی ہے اور نہ ہی کوئی جواز۔ نہ تو یہ مزاحیہ، نہ گینگسٹر اور نہ ہی خاندانی فلم ہے۔ کہا جارہا ہے اسی لئے اسے فلم'A' کا سرٹیفکیٹ دیا گیا ہے تاکہ نوجوان اور بچے اسے دیکھ نہ سکیں۔ لیکن سبھی جانتے ہیں کہ کتنے سنیما ہالوں میں یہ قانون کتنی سختی سے نافذ ہوتا ہے؟کیا کانپور، پٹنہ، ریواڑی یا پٹیالہ جیسے شہروں میں سنیما گھروں میں نوجوانوں کو جانے سے کوئی روکتا ہے؟ اس کا ایڈلٹ فلم ہونے کا کوئی بہانا نہیں ہے۔ فلم کے کچھ مناظر کسی پورن گرافی فلم سے ملتے ہیں۔ مقالوں میں اتنی گالیاں ہیں کہ ناظرین کو شرم آجاتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آج کی نوجوان پیڑھی کو یہ سب اچھا لگتا ہو لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہم ایسی فلمیں دکھا کر آخر سماج اور نوجوان پیڑھی کو کہاں لے جانا چاہتے ہیں؟ کہا یہ بھی جارہا ہے کہ فلم باکس آفس میں بہت اچھی جارہی ہے۔ باکس آفس سے ناظرین کو کیا تعلق؟ باکس آفس سے تو پروڈیوسر، ڈسٹری بیوٹر کا تعلق ہوتا ہے۔ میں نے کبھی بھی فلم کو اس لئے نہیں دیکھا کہ باکس آفس میں وہ سپر ہٹ ہے۔ نوجوان پیڑھی کو یہ فلم بہت پسند آرہی ہے۔ عامر خان اگر پوری پورن فلم (ننگی) بنا دیتے تو شاید اس سے بھی زیادہ ہٹ ہوتی اور زیادہ پسند کی جاتی۔ سوال انہیں یہ پوچھنا چاہئے کہ کہاں تو انہوں نے ’’لگان‘‘ اور ’رنگ دے بسنتی‘ جیسی بڑی اچھی فلمیں بنائیں اور کہاں یہ کوڑا کڑکٹ؟ عامر خان جی آپ اپنے بچوں کو کیا معاشرہ دینا چاہتے ہیں؟ طالبعلم زندگی کے بارے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے لیکن آج بھی طالبعلم و طالبات کے معاملے میں ماحول، سنیما، ٹی وی الگ الگ اثرات رکھتے ہیں۔ اس دور میں طاقت، توانائی، اہلیت کے امکانات بھرپور رہتے ہیں اور والدین کے ساتھ سماج اور قوم بھی اس نوجوان پیڑھی کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔اس فیصلہ کن دور میں پڑھائی لکھائی کے ساتھ عمدہ نظریات، عمدہ کلچر اور عمدہ معاشرہ سونے پر سہاگا جیسے ہیں۔ لیکن ان کے لئے ماحول ملنا تھوڑا مشکل ہوجاتا ہے سنیما نوجوانوں پر گہرا اثر چھوڑتا ہے۔ ’دہلی بیلی‘ جیسی فلموں سے ہم اپنی نوجوان پیڑھی کو آخر کیا معاشرہ دینا چاہتے ہیں؟ یہ معاشرہ ہی نوجوانوں کی زندگی کے آخر تک کام آتا ہے۔ کیا ہمیں اس طرف دھیان دینا نہیں چاہئے؟ یا پھر محض فلم ہٹ ہونے سے ہی آپ کا تعلق رہ گیا ہے؟ اگر محض باکس آفس کو ہی دیکھا جائے تو شاید ’دہلی بیلی‘ فلم میں ڈی کے باس ، گانے، گالیوں کے استعمال اور فحاشیت پھیلانے کا الزام بے معنی نظر آئے گا۔ عامر خان نے دہلی میں اپنی پریس کانفرنس میں تب یہ کہا کہ پچھلے تین دنوں میں فلم نے26 کروڑ روپے کا کاروبار کیا ہے تو ان کا یہ ہی مطلب رہا ہوگا کہ میں بھارت کے سینسر بورڈ سے سوال کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے اس فلم کو سرٹیفکیٹ کیوں دیا؟ ’ڈی کے باس بھاگ بھاگ‘ گانا اتنا بھاگا ہے کہ لفظ فحاشی اور بھدے ہونے کے باوجود اب رکنے والا نہیں۔ وزارت اطلاعات نے بھی سینسر بورڈ سے پوچھا ہے کہ آخر کیسے اس گانے کو پاس کردیا گیا ہے جبکہ اس گانے میں صاف طور پر گالیوں کی بھرمار ہے۔وزارت اطلاعات کو سینسر بورڈ سے یہ بھی پوچھنا چاہئے کہ انہوں نے اس فلم کو کس بنیادپر ، کیا سوچ کر سرٹیفکیٹ 'A' دیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ جواب دے کہ اس لئے ہم نے اسے ایڈلٹ فلم کا سرٹیفکیٹ دیا ہے۔ لیکن دیش کے کتنے ایڈلٹ فلم دیکھ رہے ہیں؟ سینسر بورڈ کے ممبر و صحافی اور آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے سکریٹری پنکج شرما بھی اس فلم اورعامرخان سے ناراض ہیں۔ ناراضگی کا عالم یہ ہے کہ وہ خود سینسر بورڈ کے ممبر ہونے پر بھی افسوس ظاہر کررہے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ سماج میں کئی سماجی برائیاں بھی ہیں تو کیا ہم انہیں بھی فلموں کے ذریعے پیش کریں گے، جیسا عامر خان اس فلم کے ذریعے سے گالیوں اور فحاشیت کا پروپگنڈہ کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں نے اس فلم پر اپنا تحریری اعتراض سینسر بورڈ کے چیئرمین کے سامنے رکھا ہے۔ میں مطالبہ کرتا ہوں کہ اس فلم پر سینسر بورڈ اور وزارت اطلاعات و نشریات کو پھر سے سوچناچاہئے۔ یہ وزارت اطلاعات و نشریات وزارت کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔
فلموں کا نوجوانوں پر سیدھا اثر پڑتا ہے۔ فلم کی بات تو چھوڑیئے ٹی وی سیریلوں کا بھی اثر پڑتا ہے۔ پچھلے دنوں دہلی کی باشندہ ایک خاتون نے سی آئی ڈی سیریل دیکھ کر اپنے محبوب کو راستے سے ہٹانے کیلئے ایسی خونی سازش رچی کے پولیس بھی چکرا گئی۔ خاتون کی شناخت کرشنا 43 سال کی شکل میں ہوئی ہے۔ کرشنا نے اپنے محبوب کی 46 لاکھ میں سپاری دی۔ اسے اپنے ساتھ دوبئی سے دہلی لے کر آئی اور یہاں کرائے کے قاتلوں کو کمرہ دلوایا۔ محبوب کو یہاں لے کر آگئی اور شراب میں نشے کی گولیاں ملا کر پلانے کے بعد اس کو قتل کرکے وہاں سے فرار ہوگئی۔ یہ پوری کہانی اس نے سی آئی ڈی سیریل میں دیکھی تھی۔جس پر اس نے خود عمل کرلیا۔ جس وقت ’دہلی بیلی‘ ریلیز ہوئی تھی اسی وقت امیتابھ بچن کی فلم ’بڈھا ہوگا تیرا باپ‘ بھی ریلیز ہوئی تھی۔ یہ کتنی صاف ستھری فلم ہے۔ ان کے اینگری ینگ مین والے پرانے انداز کو نئے انداز میں دکھانے کی ایک اچھی کوشش ہے۔ ذرا اس کو مہذب کے دائرے سے باہر نکل کر دیکھیں تو اس فلم میں نیا نظریہ اور روشن خیالی کو ہمارے سامنے رکھا ہے۔ عام طور پر فلمی کہانیاں گہرائی میں جاکر ایک نئی روح پھونکنے کی کوشش کرتی ہیں اور اسی میں ان کی خوبصورتی بھی ہے لیکن اس فلم میں وہ کئی بار زندگی کے ایسے کسی پہلو کو اجاگر کردیتی ہے جو عام سماجی نظریئے سے ہمیں نہیں دکھائی دیتا۔بڈھا ہوگا تیرا باپ‘ میں ایک بزرگ جرائم پیشہ سے نمٹتا ہے۔ سماج کو غلط عناصر سے بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ ایک طرح سے فلم ایک بزرگ کی خود اعتمادی اور جوابدہی کے احساس کو دکھاتی ہے۔ ’دہلی بیلی‘ میں عامر خان کی کیا جوابدہی ظاہر کرتی ہے؟ ڈبل معنی ، مقالے ،ہاٹ سین اور گالیوں بھرے گانے کو لیکر اس فلم پر پابندی لگانے کی مانگ کو لیکر داخل عرضی پر سماعت کے بعد مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے عامر خان کو نوٹس جاری کیا ہے اور ان سے 12 جولائی تک جواب دینے کے لئے وقت دیا ہے۔ عرضی گذار ڈاکٹر اجے سیٹھ کا کہنا ہے کہ لوگ خاص طور سے عامر خان کو ایکٹنگ کی دنیا کا بھگوان مانتے ہیں اور انہوں نے کئی مشعل راہ فلمیں بنائی ہیں لیکن ان کی نئی پروڈیوس کردہ فلم ’دہلی بیلی‘ فحاشی ہے۔ اور اس میں گالیوں کا بھی خوب استعمال کیا گیا ہے جو کہ ہندوستانی معاشرے کے خلاف ہے۔ عرضی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس میں کچھ بلو فلم جیسے مناظر ہونے کے باوجود سینسر بورڈ نے اسے کلیئر کردیا ہے۔ اس سے پہلے بھاری مخالفت کے سبب نیپال میں بھی اس فلم پر پابندی لگادی گئی تھی۔ میں نوجوان پیڑھی سے معافی چاہوں گا کہ میرے دقیانوسی نظریات سے شاید وہ متفق نہ ہوں۔
Tags: Aamir Khan, Anil Narendra, Daily Pratap, Delhi Belly, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!