ڈوپنگ معاملے نے ہماری اولمپک امیدوں پر پانی پھیرا
کامن ویلتھ کھیلوں میں جب ہندوستانی کھلاڑیوں نے شاندار کھیل کا مظاہرہ کرکے میڈلوں کی جھڑی لگا دی تھی ، تو سبھی کو لگنے لگا تھا کہ اس مرتبہ جب اولمپکس آئے گا تو اس میں بھی ہندوستان شاندار کھیل کا مظاہرہ کرسکے گا لیکن پچھلے 15 روز میں جو کچھ ہوا اس سے ہر کھیل شائقین کو زبردست دھکا لگا ہے۔ 15 دنوں کے اندر بڑے 8 ایتھلیٹوں کے ڈوپنگ یعنی (نشے بازی ) میں پکڑے جانے کے معاملے نے پوری کھیل دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور اس کا اثر اب دہلی سے لے کر این آئی ایس پٹیالہ تک دکھائی دینے لگا ہے۔ دیش کی ساکھ داؤ پر لگی ہے کیونکہ داغی کھلاڑیوں کے میڈل چھیننے سے بھارت کی میڈل فہرست چھوٹی ہوسکتی ہے۔ ڈوپنگ کے لئے محض غیر ملکی کوچ کو ذمہ دار ٹھہرانا مسئلے کا حل نہیں ہے۔آخر جب کھیل وزیر اس معاملے کے لئے افسر، کھلاڑی اور کوچ کو ذمہ دار مان رہے ہیں تو کارروائی سب پر کیوں نہیں؟ محض کوچ پر ہی کیوں، کیا اس لئے کہ وہ غیر ملکی ہے ، جس سے آسانی سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے اور زیادہ سوال جواب نہ ہو۔ بلا شبہ اس سے مطمئن نہیں ہوا جاسکتا کہ اس معاملے کی جانچ کیلئے ایک کمیٹی کی تشکیل دی گئی ہے۔ اس میں شبہ ہے کہ اس طرح کی جانچ کمیٹی سے شاید کچھ حاصل نہیں ہونے والا ہے۔ شبہ اس لئے بھی ہے کہ 2009ء میں جب کئی کھلاڑی ڈوپنگ میں پکڑے گئے تھے تو وہاں کئی ہیوی ویٹ لفٹر فیڈریشن کے افسروں سے استعفیٰ لیکر معاملے کو رفع دفع کردیا گیا تھا۔ اگر اسی وقت اس مسئلے کی جڑ تک پہنچنے کی کوشش کی جاتی تو شاید دیش کو آج جو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس سے بچ جاتے۔ ڈوپنگ اسکینڈل سے دیش کے اولمپک تمغوں کے خوابوں پرپانی پھر گیا ہے۔ اشونی اکنجی، مندیپ کور اور سمی جوز اور منجیت کی جس ریلے چوکڑی اولمپک میں کم سے کم ایک ایک میڈل کی امید تھی جو ٹوٹ چکی ہے۔
ڈوپ کے جال میں8 ایتھلیٹ پھنسے ہیں۔ ان میں سے 3 سمی ، زونا اور ٹیانا کے بی نمونے بھی جمعرات کو پازیٹو پائے گئے ہیں۔ ان تینوں پر دو دو سال کی پابندی لگ سکتی ہے۔ ڈوپنگ کے اس معاملے کا اثر دیگر ایتھلیٹوں کے حوصلے پر بھی پڑ سکتا ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ 2012ء میں اولمپکس سے پہلے کھیلوں کی تیاریاں کہیں پٹری سے نہ اترجائیں۔ قریب ایک دہائی کی مشقت کے بعد تیار ریلے ٹیم کے ساتھ کوچ، ایکسپرٹ اور ڈاکٹر جڑے ہوئے تھے جو مستقبل میں درمیانی دوری کے دیگرایتھیلٹوں کے لئے بھی کارگر ثابت ہوتے۔ اب وہ گھڑی گذر چکی ہے۔ کھیل کیمپوں میں جوش کا ماحول ختم ہوچکا ہے۔ کھلاڑی اس اندیشے میں مبتلا ہیں کہ انٹرنیشنل ایونٹ سے پہلے انہیں ڈوپنگ کی منفی ساکھ سے نکلنا پڑے گا۔
کھلاڑی شاید ہی جانتے ہوں کہ کس دوا کا کیا اثر ہوتا ہے۔ کئی ماہرین اور نامی کھلاڑی عرصے سے اس کیلئے فیڈریشن اور ڈاکٹروں کے علاوہ اہمیت کے طور پر کوچ کو ہی ذمہ دار مانتے ہیں۔ کھلاڑیوں کو اسٹرائڈ لینے کیلئے راغب کرنے کے معاملے میں اکثر کوچ ہی ذمہ دار پائے گئے ہیں۔ خاص طور پر غیر ملکی کوچ جو خود کو صرف ریزلٹ تک محدود رکھتے ہیں اور جنہیں دیش کی بدنامی سے کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ ڈوپنگ کا تازہ معاملہ یہ ہی بتاتا ہے کہ ابھی ایسا سسٹم نہیں بن سکا ہے کہ کھلاڑی ممنوعہ شے کا استعمال نہ کرسکیں۔ جس طرح ڈوپنگ کے رہ رہ کر معاملے سامنے آرہے ہیں، انہیں دیکھتے ہوئے یہ دعوی کرنا مضحکہ خیز ہوگا کہ بھارت ایک کھیل طاقت کی شکل میں دنیا میں ابھر رہا ہے؟
Tags: Anil Narendra, Athlete, Daily Pratap, Doping Test, Vir Arjun
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں