پارلیمنٹ میں بحث نہ ہونا افسوسناک صورتحال !

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بی رمننا نے اتوار کو کہا کہ دیش میں قانون بنانے کی کاروائی ایک افسوسناک حالت میں ہے چونکہ پارلیمنٹ میں کوالٹی پر مبنی بحث نہ ہونے کے سبب قانون کے کئی پہلو غیر واضح رہ جاتے ہیں جسٹس رمن نے کہا کہ قانون بنانے کی کاروائی کے دوران ایک مفصل بحث مقدمہ بازی کو کم کرتی ہے کیوں کہ جب عدالتیں ان کی تشریح کرتی ہیں تو ہم سبھی کو آئین سازیہ کی منشاءپتہ ہوتی ہے ۔چیف جسٹس 75 ویں یوم آزادی کے موقع پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ذریعے منعقد ایک تقریب میں بول رہے تھے جسٹس رمن کا یہ تبصرہ پارلیمنٹ میں ہنگامہ سے پہلے مانسون سیشن کے پش منظر میں آیا ہے ۔جب پیگاسس جاسوسی تنازعہ ، زرعی قوانین ،قیمتوںمیں اضافہ ،اور دیگر اشوزپر اپوزیشن کے لگاتار مخالفتی مظاہرہ کے درمیان کئی بل کسی بحث کے بغیر پاس کر دئیے گئے پارلیمنٹ مقررہ تاریخ سے دو دن پہلے ہی ملتوی کر دی گئی تھی ۔چیف جسٹس کے اہم ریمارکس ایسے معاملے کے سلسلے مین کافی اہم ترین ہیں جس میں عدلیہ کی تشکیل کو لیکر معاملہ حالانکہ بڑی عدالت کے سامنے زیر غور ہے لیکن مرکزی حکومت نے آگے بڑھ کر پارلیمنٹ میں بغیر کسی بحث کے چوڈیشیل اتھارٹی سے متعلق ایک ترمیم بل پاس کرا لیا بل کے ذریعے ان تقاضوں کو بحال کیا گیا جنہیں سپریم کورٹ نے منسوخ کر دیا تھا چیف جسٹس نے ساتھ ہی آئینی بنچ کے ممبران سے عام زندگی میں حصہ لینے اور قوانین کے بارے میں اپنے خیالات شیئر کرنے کی بھی اپیل کی انہوں نے کہا دیش کی لمبی تحریک آزادی کی قیادت وکیلوں نے ہی کی ہے ۔چاہے وہ مہاتما گاندھی ہوں یا بابو راجندر پرساد ہوں جنہوں نے اپنی چیئر مینشپ ، پریوار و زندگی کو تیاگ دیا اور تحریک کی قیادت کی انہوں نے بار ممبران کو کہا کہ پہلے لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے زیادہ تر ممبر وکیل اور لاءکمیونٹی کے ممبر تھے ۔بدقسمتی سے ہم جانتے ہیں کہ قوانین پر بحث سے متعلق پارلیمنٹ میں اب کیا ہو رہا ہے پہلے مختلف آئینی ترامیم اوران کے اثرات لوگوں پر پڑنے پر پارلیمنٹ میں بحث ہوا کرتی تھی اب حالات قابل افسوس ہیں بحث کی کمی کے سبب قانون بنانے کی کاروائی میں بہت ساری غیر واضح باتیں ہوتی ہیں قانون کو لیکر صاف نہیں ہوتا ۔ہم جانتے ہیں کہ آئین سازیہ کا ارادہ کیا ہے ؟ ہم نہیں جانتے کہ قانون کس مقصد سے بنائے گئے ہیں ؟ اس سے لوگوں کو بہت پریشانی ہوتی ہے ایسا تب ہوتا ہے جب قانونی برادری کے ممبر ایم پی یا راجیہ سبھا یا ریاستی اسمبھلی میں نہیں ہوتے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟