جج صاحبان کی حفاظت کا سوال!

سپریم کورٹ نے جج صاحبان و عدالتوں کے احاطوں کی حفاظت کو لیکر سخت رخ اپناتے ہوئے منگل کے روز ریاستوں کو اس مسئلے پر جواب داخل کرنے کا آخری موقع دیا ہے بڑی عدالت نے ریاستوں کو آگاہ کیا ہے کہ اگر آپ ایک ہفتے میں جواب داخل نہیں کر پائے توان سبھی پر ایک ایک لاک روپئے کا جرمانہ لگایا جائے گا ۔ بھارت کے چیف جسٹس این وی رمن کی سر براہی والی تین ممبری بنچ نے اپنے حکم میں کہا کہ ایک ہفتے کے اندر حلف نامہ نہ داخل ہونے کی صورت میں ان ریاستوں کے چیف سکریٹریوں کو عدالت میں سماعت کے دوران موجود رہنا ہوگا ۔ بنچ نے بار کونسل آف انڈیا کو بھی حلف نامہ دائر کرنے کی بھی اجازت دے دی ہے اس سے پہلے سماعت کے دوران مرکزی حکومت کی طرف سے دیش کے سالی سیٹر جنرل تشار مہتا نے کہا وزارت داخلہ نے سال 2007میں ہی جج صاحبان کی حفاظت کو لیکر ریاستوں کے لئے گائیڈ لائنس جا ری کر رکھی ہیں ۔ 2020میں ان گائیڈ لائنس کو پھر دہرایا گیا تھا در اصل جج اتم آنند کی موت کے بعد سپریم کورٹ نے عدالتوں کی حفاظت اور جج صاحبان کی حفاظت و تحفظ یقینی بنانے کو لیکر از خود نوٹس لیا تھا ۔ واضح ہو کہ 28جولائی کو ایک آٹو رکشا نے جج آنند کو اس وقت ٹکر مار دی تھی جب وہ صبح کی سیر پر نکلے ہوئے تھے ۔ شروع میں تو معاملہ سڑک حادثے کا مانا جا رہا ہے لیکن بعد میں جب سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھے گئے تو ایسا لگا کہ آٹو ڈرائیور نے جان بوجھ کر جج آنند کو ٹکر ماری تھی جس میں ان کی جان چلی گئی ۔ بنچ نے سالی سیٹر جنرل تشارمہتا سے کہا کہ آپ ریاستوں سے بات کر کے کوئی فیصلہ لیں کی مسئلے کا کیسے نپٹارہ کیا جائے؟جس پر مہتا نے جواب دیا کہ ججوں کے لئے قومی سطح پر سیکورٹی اسکوئیڈ یا ممکن نہیں ہو سکتا ایک خاص یا ایک پولس فورس بنانے کے بجائے ریاستوں اور مرکزی حکمراں پر دیشوں کے لئے ماضی گذشتہ میں دی گئی گائیڈ لائنس کی تعمیل یقینی کرنے کی ضرورت ہے ۔ بنچ نے کہا سوال یہ ہے کہ ججوں اور عدالتوں کی سیکورٹی کے لئے کیا ان گائیڈ لائنس کی تعمیل کی جاتی ہے ؟ آپ مرکزی سرکار ہیں آپ اسے کرنے کے لئے سب سے موضوع شخص ہیں ریاستیں اب کہہ رہی ہیں کہ ان کے پاس سی سی ٹی وی وغیرہ کے لئے پیسہ نہیں ہے ان مسئلوں کا آپ کو ریاستوں سے بات چیت کرکے حل نکالنا ہوگا۔ ہماری بھی یہی رائے کہ جج صاحبان اور عدالتوں کی ضروری سیکورٹی سسٹم ہونا چاہئے آئے دن عدالتوں میں فائرننگ ہوتی رہتی ہے جج مجرموں کو سز ا دیتے ہیں اس لئے وہ خندک کی وجہ سے وہ مجرموں کے نشانے پر رہتے ہیں ۔ اگر ججوں کی حفاظت کی صحیح انتظام نہیں ہوگا تو وہ نڈر ہو کر فیصلہ کیسے کریں گے ۔ جج آنند صبح جب سیر کے لئے جا رہے تھے تو بلکل تنہا تھے نا تو کوئی پی ایس او ساتھ نہیں تھا یا پھر کافی پیچھے چل رہا ہوگا ۔ اگر ضروری حفاظتی انتظامات ہوتے تو شاید ان کی جان نہ جاتی ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟