ممبئی کی جھگی بستیاں بن رہی ہیں چنوتی

ممبئی میں کورونا وائرس انفکشن کو روکنے کی کوشش کے لئے شہر کی جھگی بستیاں بڑی چنوتی بن رہی ہیں جن میں ایک کروڑ بیس لاکھ کی کل آبادی والے اس شہر کی بڑھتی آبادی بے حد گنجان جگہوں اور گندے حالات میں رہتی ہے ۔خوابوں کی نگری کہی جانے والے اس شہر میں جہاں ایک طرف بڑی تعداد میں عرب پتی لوگ رہتے ہیں وہیں دوسری طرف اسی علاقے کی سب سے بڑی جھگی بستی دھاراوی بھی ہے جو کورونا وائرس سے بری طرح متاثر ہے یہ علاقہ 2.4مربع کلو میٹر علاقے میں پھیلا ہوا ہے لیکن اتنے سے علاقے میں بیس لاکھ سے زیادہ لوگ رہتے ہیں ٹاٹا گروپ کے چیئرمین رتن ٹاٹا نے ایک سیمینار کے دوران ڈبلپروں اور نقاشوں کے شہر میں موجود جھگی جھوپڑیوں کے ساتھ ایک سوتیلے پن کی طرح رویہ اپنانے پر ناراضگی ظاہر کی تھی انہوں نے کورونا وبا کے تیزی سے پھیلنے کی ایک بڑی وجہ ان جھگی بستیوں کو بھی بتایا تھا سستے مکان اور جھگیوں کو ہٹانے کیلئے دو گروپ مسلسل مخالف رہے ہیں ہم لوگوں کو ناپسندیدہ حالات میںرہنے کے لئے انہیں وہاں سے ہٹا کر جھگیوں کو ہٹانا چاہتے ہیں ان لوگوں کو جہاں رہنے کی جگہ دی جاتی ہے وہ بھی شہر سے بیس بیس میل دور ہوتی ہے اور انہیں اپنی جگ سے اجاڑنے سے ان لوگوں کے پاس کوئی کام نہیں رہ جاتا ٹاٹا کا کہناتھا کہ لوگ مہنگا مکان بناتے ہیں جہاں کبھی جھگیاں ہوتی تھیں لیکن آج اس میٹرو شہر میں کوروناوائرس سے 10498مریض سامنے آچکے ہیں اور 450کی موت ہو چکی ہے ۔آج دھاراوی جھگی بستی میں 100سے 200مربع فٹ کے کمروں میں 8سے 10لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں اور ان کے ٹوئلٹ بھی ایک ہی ہے اور پانی کے لئے ایک ہی نل استعمال کرتے ہیں ایسے میں کورونا وائرس پھیلنے کا خطرہ زیادہ ہے ۔ممبئی میٹر ڈولپمنٹ اتھارٹی کے سابق چیئرمین جی کے پاٹھک کہا کہنا ہے پالیسی سازی مین ناکامی نیتاو ¿ں اور بلڈروں کی کبھی ختم ناہونے والی توقعات کے سبب شہر جھگی بستی سے نجات نہیں پا رہا ہے ۔رئیل اسٹیٹ ڈیولپروں اور قومی میٹرو نائیکو کارپوریشن کے چئیرمین ہیرن اندانی نے بھی اعتراف کیا ہے کہ ممبئی کے لئے مناسب شہری بیداری کی کمی بھی کبھی نہیں پھیلائی گئی ہے اور ان جھگی بستیوں میں کورونا انفکشن روکنا بہت بڑی چنوتی ہے ۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟