ہنستے ہنستے چلا گیا ایک عظیم اداکار

غیر معمولی اداکاری کے ہنر کے بوطے پر عام آنکھ نکش والے عرفان خان نے ہر کسی کو اپنافین بنا لیا مقبول فلم پان سنگھ تومر ،مداری اور مکھیہ دھارا کی انگریزی میڈیم ،پی کو جیسی فلموں کے بوتے پر انہیں پرسکاروں کا وہ پیار حاصل ہو اہے جس کے لئے اداکار اور فلمی ستارے دونوں ہی ترستے ہیں ۔ہندی فلمی دنیا کے اس بین الاقوامی اداکار ی کے شہنشاہ عرفان خان ہمارے درمیان سے چلے گئے اور ان کو ممبئی میں ہی سپرد خاک کیاگیا ۔خاموش چہرے اور آنکھوں سے اداکاری سے مقبول 53سالہ عرفان خان نیورو اڈرو کائنڈ ٹیومر (کینسر ) تھا آنتوں میں انفکشن ہونے پر انہیں منگل کے روز اسپتال میں داخل کیاگیا تھا جہاں وہ اس دنیا کو الوداع کہہ گئے ۔چاردن پہلے ان کی والدہ سعیدہ بیگم کا بھی انتقال ہو گیا تھا ۔زندگی کے آخری لمحوں میں بھی اپنے کام سے زندہ رہنے کی خواہش عرفان خان میں تھی وہ زندگی کے سرکس کو باہر کھڑے ہوکر دیکھتے تھے جب ایک نامہ نگار نے ان سے پوچھا جب وہ علاج کر ا رہے ہیں تو شوٹنگ کیوں جاری رکھناچاہتے ہیں انہوں نے کہا کہ میں مرا نہیں ہوں اور نا ۔۔۔۔تو مجھے جس کام سے پیار ہے وہ کرنے کے لئے زندہ رہنے دو۔عرفان خان کو 2018میں ٹیومر کینسر کا پتہ چلا تھا ان کے پریوار میں بیوی ستاپا اور دو بیٹے بابل اور عیاں ہیں۔عرفان خان نے صرف دیش میںہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اپنی اداکاری کا لوہا منوایا ۔عرفان خان کو ممبئی کے کوکلہ بینک دھیرو بائی امبانی اسپتال میں انفکشن کی وجہ سے داخل کرایاگیاتھا جہاں وہ زندہ نا رہ سکے عرفان خان ایک مضبوط انسان تھے جنہوں نے اپنی بیماری سے آخر تک لڑائی لڑی اور اپنے سے ملنے والے ہر شخص کی رہنمائی کی ۔عرفان خان کو بدھوار کو ہی اپنی موت کا احساس ہو گیاتھا انہوں نے اسپتال کے کمرے میں اپنی بیوی سپاتا سکدر سے کہا کہ دیکھو اماں ان کی طرف بیٹھی ہے اور وہ انہیں لینے آئی ہے یہ سن کر ان کی بیوی رونے لگی اور کمرے سے باہر چلی گئی کیونکہ ان کی والدہ تین دن پہلے ہی اس دنیا سے چلی گئی تھی لیکن لاک ڈاو ¿ن کے چلتے وہ اپنی اماں کے جنازے میں شامل نہیں ہو پائے ۔عرفان کا آخری پیغام ۔میںآپ کے ساتھ ہوں بھی اور نہیں بھی میرا انتظار کرنا ہے لو بھائیوں ،بہنوں ۔نمشکار میں عرفان میں آج آپ کے ساتھ ہوں اور نہیں بھی میرے جسم کے اندر کچھ ان چاہے مہمان بیٹھے ہوئے ہیں ان سے بات چیت چل رہی ہے دیکھتے ہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے جیسا بھی ہوگا آپ کو جانکاری دے دی جائےگی ۔جب عرفان کواس منہوس بیماری کا پتہ چلا تو انہوں نے اسپتا ل میں لکھا تھا کئی بار سفر ایسے بھی ختم ہوتا ہے ابھی تک میں بے حد الگ کھیل کا حصہ تھا اور میں ایک تیز بھاگتی ٹرین پر سوار تھا ۔میرے خواب تھے منصوبے تھے میں پور ی طرح مصروف تھا تبھی ایسا لگا جیسے کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے مجھے روکا وہ ٹی سی تھا ۔بولا آپ کا اسٹیشن آنے والا ہے نیچے اترا ائیں میں پریشان ہوگیا نہیں نہیں میرا اسٹیشن نہیں آیا ۔اس نے کہا آپ کا سفر یہیں تک تھا کبھی کبھی سفرایسے ہی ختم ہوتا ہے بہرحال عرفان خان تو چلے گئے ان کی اداکاری ہمیشہ زندہ رہے گی وہ ایک نیک ملنسار اداکار تھے ۔ہمارا آخری سلام !
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!