باپو نے لکھا تھا اخباروں پر کنٹرول سب سے زیادہ تباہ کن ہے

آج ہم اپنے پیارے باپوکی 150ویں جینتی منارہے ہیں ۔باپو آج بھی دینا بھر میں ان لاکھوں کروڑوں لو گوں کیلئے امید کی کرن ہیں ۔جو برابری ،عزت اور میل جول اور تفویض سے بھر پور زندگی جینا چاہتے ہیں۔مہاتما گاندھی نے صحیح معنوں میں اصول اور برتاؤ سے جوڑا تھا ۔ان کے مضبوط ارادے تھے انھوں نے اپنی زندگی میں جو عہد کئے مرتے دم تک ان پر قائم رہیں ۔1888میں لندن میں گاندھی جی سوٹ میں دکھائی دےئے تھے 33سال بعد 1921میں مدورئی میں سوٹ چھوڑ کر دھوتی اپنالی اس درمیا ن گاندھی جی نے اپنے ارادوں اور نظریات او ربرتاؤ سے دیش میں بھر میں ستیہ گرہ شروع کیا ۔اس کے ذریعہ اخبارات میں لکھی باتیں آج بھی راہ عمل ہیں ۔مہاتماگاندھی کے اخبار ینگ انڈیا ،ہریجن ،اور نوجیون میں شائع ان کے لکھے گئے ادارتی حصے پیش ہیں ۔۔۔اخبارو ں کو کوئی اور کنٹرو ل کرے تو وہ سب سے زیادہ تباہ کن ہوتا ہے باپو نے لکھا انھوں نے میرے مضامین میں دلچسپی لینے والوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ سچائی کی تلاش میں میں نے بہت سے نظریات پیش کئے ہیں ۔اور بہت سی باتیں سیکھی ہیں مجھے سنیا سی کہنا غلط ہے میری زندگی جن اصو لوں سے چلتی ہے وہ عام لوگوں کے ذریعہ اپنائے جاسکتے ہیں ۔انہیں آہستہ آہستہ ہر قدم سوچ سمجھ کر او ر ہوشیاری سے اٹھایا ہے خود کو عام شخص مانتا ہوں جس سے دیگر لوگوں کی طرح غلطیاں ہوسکتی ہے ہاں میرے اندر اتنی نرم گوئی ضرورہے کہ میں غلطیاں تسلیم کرسکوں ۔صحافت کا ایک محض ایک مقصد سیوا ہونا چاہئے ۔اخبارات کے پاس بڑی طاقت ہے لیکن جس طرح بے کنٹرول سیلاب کا پانی پوری بستیوں کو ڈبا دیتا ہے اسی طرح کنٹرو ل باہر سے کیا جائے تو وہ او ربھی تباہ کن ہوجاتاہے ۔پریس کا کنٹرو ل فائدہ مند ہوسکتا ہے جب اخبارات اسے خود لاگو کریں ۔باپو نے ہندو مسلم یکتا پر دکھا کہ ہندو مسلم اتحاد تو ہمیں سیاسی پالیسی کی شکل میں اپنا نا چاہئے ۔جو کسی بھی کل یا حالات میں چھوڑا نا جاسکے ہم اسے کچلنے پر غور کریں گے تو ہم لوگ جب تک عدم تشدد کو بنیادی پالیسی کی شکل میں قبول نہیں کریں گے تب تک ہندو مسلم اتحاد قائم ہونا ممکن نہیں ہے ۔گؤ ہتیا ،گؤ رکھشکوں پر باپو نے کہا قانو ن سے گوبدھ کبھی بند نہیں کیا جاسکتا سائنس وتعلیم اور گائے کی تئیں ہمدردانہ رویہ اپنانا سے بند ہوسکتا ہے ۔ہندو ؤں کے لئے بیوقوفی اور نامناسب ہوگا اگر اقلیتوں (مسلمانوں )پر گؤ ہتیا کے قانون لاگو کرنے کو ماننے کیلئے طاقت کا استعمال کرتے ہیں ۔جب مسلمانوں کو یقین ہوجائے گا کہ ہندو ان کے لئے جان کی بازی لگا رہے ہیں تب وہ گؤ ہتیا بند کردیں گے قرآن شریف میں یہ نہیں ہے کہ مسلمانوں کو گؤ ماس کھانا چاہئے ۔باپو ذات پات سسٹم اور چھوا چھوت پر بہت فکر مند تھے انھوں نے لکھا ہے :ایک طبقہ دوسرے سے بہتر ہے ایسا کہیں نہیں کہا گیا ہے ۔ذات اور چھواچھوت کی روایت ختم ہونی چاہئے جنکے آباد اجداد نے اس روایت کو رائج کرنے کا گناہ کیا ہے انہیں کو کفارے کی شکل میں اس کے اژالہ کا کام کرنا چاہئے ۔اچھوت مانے جانے والے لوگوں کی سیوا کرنی چاہئے بد فعلی کے واقعات پر باپو کہتے ہیں عورتوں کو اور آزادی ملنی چاہئے جس عورت پر بد فعلی جیسا حملہ ہو وہ حملے کا جواب تشدد کی بجائے عدم تشدد کا رویہ اختیار کرے ۔دفعہ میں ہی حملہ دھرم ہے متاثرہ عورتوں کو ایسے واقعات کو چھپانے کا رواج ختم ہونا چاہئے ۔لوگ کھل کر اس مسئلہ پر بحث تو کریں گے تو ایسے واقعات ختم ہوجائیں گے ۔باپو کے برسوں پہلے ظاہر کئے گئے نظریات وتجاویز آج بھی راہ عمل ہیں مشکل یہ ہے کہ ہم باپو کا گن گان توکرتے ہیں لیکن ان کے نظریات کو نہیں اپنا تے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!