ایک سرکاری چپڑاسی سے کم کماتے ہیں 87فیصد لوگ

اکثر بڑھتے بے روزگاروں کی تعداد پر بحث ہوتی رہتی ہے۔ اعدادو شمار بھی بتاتے ہیں کہ دیش کے اقتصادی ڈھانچے میں جو تبدیلی ہوئی ہے اس نے روزگار کے مواقع لگاتار گھٹ رہے ہیں۔ 2013-14 کے بعد ملازمتوں کی تعداد گھٹی ہے۔ نوجوانوں اور اعلی تعلیم یافتہ لوگوں میں بے روزگاری کی تعداد اس وقت 16فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ منگل کو جاری پریم جی یونیورسٹی کے سینٹر فار سسٹین ایبل امپلائمنٹ کی رپورٹ میں یہ دعوی کیا گیا ہے کہ 2013 سے 2015 کے دوران نوکریوں کی تعداد 70 لاکھ سے کم ہوئی ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر کا حال ان اعدادو شمار سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ٹرینڈ 2015 کے بعد بھی بنا ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق گروتھ سے کم نوکریوں میں بھاری کمی آئی ہے۔ 1970-80 کی دہائی میں جی ٹی بی گروتھ ریٹ 3-4 فیصد ہوا کرتی تھی تب ہر سال نوکریاں 2 فیصد بڑھتی تھی۔ 2000 کے بعد جی ٹی بی گروتھ بڑھ کر70 فیصد ہوگئی لیکن نوکریاں ایک فیصد کم ہوگئیں۔ روایتی طور سے بھارت کا مسئلہ بیروزگاری نہیں بلکہ نوکریوں کی کمی رہی ہے یعنی لوگوں کو ان کی اہلیت کے حساب سے کام نہیں ملتا۔ نوجوانوں کو اعلی تعلیم یافتہ لوگوں میں بے روزگاری 16 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ دیش میں ایک چپڑاسی کے لئے انجینئر یہاں تک کہ پی ایچ ڈی ڈگری والوں کی درخواستیں آنے کے بارے میں کئی بار ہم نے سنا ہے۔ پریم جی یونیورسٹی کے مطابق دیش کے 87 فیصد لوگوں کی کمائی سرکاری محکمہ کے چپڑاسی سے بھی کم ہے۔ ایک اسٹڈی کے مطابق دیش میں 87 فیصدی لوگوں کی ایک مہینے کی آمدنی 10 ہزار روپے سے کم ہے۔ اس میں 82 فیصدی مرد اور 92 فیصدی عورتیں شامل ہیں۔ اس کا موازنہ اسی دور میں ساتویں پے کمیشن کے تحت کم از کم تنخواہ 18000 روپے مہینہ ہوگئی ہے۔ خود روزگار کے محاذ پر 85 فیصدی لوگ ایسے ہیں جن کی مہینے میں آمدنی 10000 روپے سے نیچے ہے۔ 41.3 فیصدی لوگ ایسے ہیں جن کی کمائی 5 ہزار سے بھی کم ہے۔ 26فیصد لوگ خود کام کرکے پانچ ہزار سے ساڑھے سات ہزار روپے مہینہ کماتے ہیں۔ اس رپورٹ کو تیار کرنے والے امت گھونسلے نے بتایا کہ اس اسٹڈی کو لیکر تفصیلات و روزگار سروے 2015-16 کے اعدادو شمار اور نیشنل سینٹرسروے کے اعدادو شمار شامل کئے گئے ہیں۔ بیروزگاری پورے دیش میں بڑھی ہے لیکن شمالی ریاستوں میں یہ زیادہ ہے۔ اسٹیٹ آف ورکنگ انڈیا نامی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سرکار کو جلد ہی قومی روزگا ر پالیسی بنانی چاہئے۔ ادھر منگلوار کو سینٹرل ٹیلی آفس (سی ایس او) نے بھی روزگار کے اعدادو شمار جاری کئے ہیں جن میں کہا گیا ہے جولائی میں 13.97 لاکھ لوگوں کو نوکری ملی جو ستمبر 2017 کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ ایک دیگر خبر میں امیر غریب کے درمیان فرق کم کرنے والی کوششوں کے درمیان دیش کے امیروں پر جاری رپورٹ الگ ہی تصویر بیاں کررہی ہے۔ دیش میں پچھلے دو سالوں میں ایسے لوگوں کی تعداد دوگنی سے زیادہ ہوگئی ہے جن کی پراپرٹی 100 کروڑ روپے یا اس سے بھی زیادہ ہے۔ یعنی پچھلے دو سالوں میں امیروں کی تعداد دوگنا ہوگئی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!