پتن کے دورہ ہند پر دنیا کی نگاہیں

روس کے صدر ولادیمیر پتن دو روزہ دورہ پر بھارت آئے۔ بھارت کے ساتھ دنیا کے بڑے دیشوں کی نگاہیں پتن کے اس دورہ پر لگی ہیں۔ روس اور ایران پر امریکی پابندیوں کے سائے کے درمیان ہوئے پتن کے دورہ میں دونوں ملکوں کے آپسی رشتوں کو رفتار دینے اور مسلسل کاروبار کو جاری رکھنے کے طریقوں پر غور ہونا فطری ہے۔ غور طلب ہے کہ بھارت امریکہ کو اعتماد میں لیکر رو س کے ساتھ فوجی و سیاسی رشتوں کو جاری رکھنے پر زور دے رہا ہے۔ اس سال جون میں صوفی میں وزیر اعظم نریندر مودی اور روس کے صدر ولادیمیر پتن کی غیر رسمی ملاقات پھرشنگھائی تعاون کانفرنس کی میٹنگ میں باہمی اشوز پر تبادلہ خیال اور اب ان دونوں کی رہنمائی میں سالانہ میٹنگ، بتاتی ہے کہ دونوں دیش ایک دوسرے کے کتنے قریب ہیں۔ روس برسوں سے بھارت کا دوست رہا ہے اور بھارت کا ہمیشہ روس نے سمرتھن کیا ہے۔ ان سبھی میٹنگوں کی تیاریوں کے بعد مودی اور پتن چوٹی کانفرنس میں اگلی ایک دہائی میں ڈیفنس سے لیکر سائنس تک اور ذراعت سے لیکر برقی سیکٹر میں باہمی اشتراک کرنے کی کوشش کریں گے۔ اگلی ایک دہائی کا ایجنڈا طے کریں گے۔ پی ایم مودی اور صدر پتن سب سے اہم یہ ہے کہ روس سے ایئرڈیفنس سسٹم ایس 400 خریدنے کی پوری تیاری کرلی ہے۔ دونوں ملکوں نے اس سودے کا باقاعدہ خاکہ تیار کرلیا ہے۔ بھارت کا یہ سودا امریکہ سے تنازعہ کا سبب بھی بن گیا ہے۔ بھارت۔ امریکہ کے درمیان ہوئے 2228 ای میٹنگ میں روس سے اس سودے پر بات چیت مرکز میں رہی تھی۔ امریکہ نہیں چاہتاکہ بھارت روس سے یہ ڈیفنس سودا کرے۔ کہا جارہا ہے کہ اس سودے کے سبب بھارت پر امریکہ کی جانب سے اقتصادی پابندی لگائے جانے کا خطرہ منڈرا رہا ہے۔ اس کے باوجود بھارت پانچ ایس۔400 خریدنے کے آخری مرحلے میں پہنچ چکا ہے۔ ایس۔400 کے بارے میں تھوڑی معلومات دے دوں۔ ایس۔400 کو دنیا کا سب سے اثر دار ڈیفنس سسٹم مانا جاتا ہے۔ یہ دشمنوں کے مزائل حملے روکنے کا کام کرتا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ بھارت نے اس سودے کا باقاعدہ اعلان تو کردیا ہے لیکن امریکہ کے لئے یہ بہت مایوس کن ہوگا۔ ادھر روس کی سرکاری خبر رساں ایجنسی اسپوتنک کا کہنا ہے کہ صدر پتن کے دورۂ ہند سے پہلے نریندر مودی کی قیادت والی سکیورٹی پر بنی کیبنٹ کمیٹی نے روس سے پانچ ارب ڈالر سے زیادہ کے ایس۔400 ایئر ڈیفنس سسٹم کی خرید کو منظوری دے دی ہے۔ 1960 کی دہائی سے ہی روس بھارت کا سب سے بڑا دفاعی سازو سامان کا سپلائر رہا ہے۔ 2012 سے 2016 کے درمیان بھارت کی کل ڈیفنس درآمدات کا 68 فیصد روس کے ساتھ کاروبار ہوا ہے۔ اگر بھارت کو ایس۔400 ڈیفنس سسٹم مل جاتا ہے تو یہ دونوں چین اور پاکستان کے لئے بہت تشویش کا باعث ہوگا۔ ایس۔400 سے آئے دن پاکستان کی نیوکلیئر دھمکی کا توڑ ہوجائے گا۔ بیشک روس چین کو پہلے ہی یہ سسٹم دے چکا ہے لیکن پھر بھی چین کو جارحانہ رخ اختیار کرنے سے روکے گا۔ بھارت کے ایس۔400 حاصل کرنے سے پاکستان اور چین کی طاقت متاثر ہوگی۔ اس سے ہمارے بھارت۔ پاکستان کی ہوائی پہنچ اور خاص کر جنگی جہاز ، کروز میزائل، ڈرون کے خطرے ناکام کرنے کی صلاحیت ہے۔ ایسا اس لئے ہے کیونکہ اس کا ٹریکنگ رینج 600 کلو میٹر تک ہے اور 400 کلو میٹر تک مار گرانے کی صلاحیت ہے۔ صرف تین ایس۔400 میں ہی پاکستان کی سبھی سرحدوں کی نگرانی کی جاسکتی ہے۔روس کے صدر ولادیمیر پتن کے دورہ کا بھارت میں خیر مقدم ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟