مایاوتی کے اعلان سے کانگریس کو جھٹکا،بھاجپا کو راحت

10 دن کے اندر بسپا نے اپوزیشن اتحاد اور خاص کر کانگریس کو دوسرا جھٹکا دے کر چناوی حکمت عملی بگاڑ دی ہے۔ بسپا چیف مایاوتی نے مدھیہ پردیش اور راجستھان میں اکیلے چناؤ لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ بدھ کو لکھنؤ میں میڈیا سے بات میں کہا کہ کانگریس کا رویہ بسپا کی مخالفت میں رہا ہے اس لئے پارٹی راجستھان ،چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش وغیرہ میں علاقائی پارٹیوں کے ساتھ مل کر چناؤ لڑے گی۔ بسپا چیف نے دگوجے سنگھ پر اتحاد نہ ہونے کا ٹھیکرا پھوڑدیا ہے۔ مایاوتی نے الزام لگایا کہ کانگریس صدر راہل گاندھی و سونیا گاندھی بسپا کے ساتھ اتحاد کرنا چاہتے ہیں لیکن دگوجے سنگھ ایسا نہیں چاہتے۔ وہ بھاجپا کے ایجنٹ ہیں اور ای ڈی اور سی بی آئی سے ڈرتے ہیں۔ مایاوتی کی ناراضگی کی وجہ دگوجے سنگھ کا وہ ٹی وی انٹرویو ہے جس میں کانگریس نیتا نے یہ کہا تھا کہ ای ڈی و سی بی آئی کے ڈر سے بسپا نے کانگریس سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ کانگریس کے ترجمان رندیپ سرجے والا نے کہا کہ مایاوتی نے کانگریس کے تئیں جو بھروسہ ظاہر کیا ہے اس کے لئے پارٹی ان کا احترام کرتی ہے۔ کانگریس صدر اور ان کے درمیان اتفاق رائے بنتا ہے تو تیسری طاقت پیدا نہیں کرسکتی۔اترپردیش میں کسان تحریک اور اعلی برادریوں کی ناراضگی سے فکرمند بھاجپا نے بسپا کے نئے موقف سے راحت کی سانس ضرور لی ہوگی۔ بسپا کے کانگریس کے ساتھ اسمبلی چناؤ میں اتحاد نہ کرنے کے آپسی مفادات گہرے ہیں اور بھاجپا اسے وسیع پس منظر میں دیکھ رہی ہے۔ مرکزی وزیر و سینئر بھاجپا لیڈر روی شنکر پرساد نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ اتحاد بنانا کانگریس کے ڈی این اے میں نہیں ہے۔ مایاوتی نے کانگریس کے ساتھ مدھیہ پردیش اور راجستھان میں اتحاد نہ کرنے کو لیکر کانگریس نیتا دگوجے سنگھ کے حالیہ بیان کو بیشک بنیاد بتایا ہے لیکن چھتیس گڑھ میں کانگریس سیٹوں کے لئے امیدواروں کا اعلان کرکے پہلے ہی صاف کردیا تھا کہ بسپا کانگریس کے ساتھ اتحاد میں نہیں جانا چاہ رہی ہے۔ اب اس کے فیصلے سے درپردہ طور سے بھاجپا کو راحت ملی ہے۔ بسپا کے مدھیہ پردیش کے چار ممبر اسمبلی اور قریب ساڑھے چھ فیصدی ووٹ ہیں جبکہ 2008 کے چناؤ میں بسپا نے 7 سیٹیں جیتی تھیں۔ 2013 کے اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ کانگریس اور بھاجپا میں صرف 8 فیصدی ووٹ کا فرق ہے۔ مدھیہ پردیش میں دلتوں کی آبادی 15.2 فیصدی ہے۔ کانگریس کے ایک سینئر لیڈر نے کہا کہ بسپا کے اکیلے چناؤ لڑنے سے ہماری مشکلیں بڑھیں گی کیونکہ فی الحال پچھلے چناؤ میں ایک درجن سے زیادہ سیٹ پر کانگریس ۔ بھاجپا کے فرق سے زیادہ بسپا کو ووٹ ملے تھے۔ ایس سی۔ ایس ٹی قانون پر تنازعہ کے چلتے اس بار بسپا کی حمایت میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!