بھارت کے نئے چیف جسٹس رنجن گوگئی

جسٹس رنجن گوگئی سپریم کورٹ کی 46 ویں چیف جسٹس کی حیثیت سے 3 اکتوبر کو حلف لیں گے۔ ان کا خیر مقدم ہے جسٹس گوگئی کے بارے میں کم لوگ جانتے ہوں گے کہ وہ نارتھ ایسٹ انڈیا سے پہلے چیف جسٹس ہوں گے۔ ایسے ہی وہ سپریم کورٹ کے پہلے چیف جسٹس ہوں گے جن کے والد وزیر اعلی رہ چکے ہیں۔ ان کے والد شرد چندر گوگئی آسام میں کانگریسی لیڈر تھے اور سال1982 میں آسام کے وزیر اعلی رہے ہیں۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر وکیل وکاس سنگھ بتاتے ہیں کہ جسٹس گوگئی کئی زبانوں کے ماہر ہیں لیکن سخت مزاج کے ہیں۔ وہ ڈسپلن کے بہترین جج رہے ہیں۔ انہیں وکیل کے کپڑوں تک کا دھیان رہتا ہے۔ اگر کوئی وکیل پوری طرح ڈریس پہن کر نہیں آتا تو وہ اسے اپنی کورٹ میں بولنے کی بھی اجازت نہیں دیتے۔ یہاں تک کہ کورٹ میں پہنچنے والے افسران کو بھی وہ صحیح ڈھنگ سے کپڑے نہ پہننے پر ڈانٹ لگا چکے ہیں۔ جسٹس گوگئی کو ناانصافی برداشت نہیں ہوتی اس کے خلاف کس حد تک جاسکتے ہیں اس کی مثال دیش دو بار دیکھ چکا ہے۔ پہلی بار تب جب سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج مارکنڈے کاٹجو نے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے پر سوال اٹھائے۔ انہوں نے سپریم کورٹ کی تاریخ رقم کرتے ہوئے نہ صرف توہین عدالت کے معاملے میں نوٹس بھیجا بلکہ انہیں کورٹ بلا کر معافی بھی منگوائی۔ دوسرا معاملہ اسی برس 12 جنوری کا تھا جب انہوں نے مقدمات کی سماعت کے لئے ججوں کے درمیان الاٹمنٹ کی کارروائی پر نا خوشی ظاہر کرتے ہوئے تین ساتھی ججوں کے ساتھ مل کر چیف جسٹس دیپک مشرا کے خلاف ہی پریس کانفرنس کر محاذ کھول دیا تھا۔ جسٹس گوگئی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ غلطی کسی کی بھی ہو وہ اسے معاف نہیں کرتے۔ اگر کوئی زبردستی پریشان کیا جارہا ہو تو اسے فوری راحت دینے سے گریز نہیں کرتے۔ ایسا ایک معاملہ 14 دسمبر 2017 کا ہے۔ التوا مقدمات کے سلسلے میں ادھوری تیاری سے کورٹ میں حاضر ہونے والے دہلی ہائی کورٹ کے جسٹس رجسٹرار کو انہوں نے بہت سخت پھٹکار لگائی تھی۔ وہیں دوسری مثال ایک جج کے معاملہ میں دیکھنے کو تب ملی جب ایک شخص کو صرف اس بنیاد پر ضمانت نہیں دی جارہی تھی کہ اس کی بیوی ایک جج ہے تو انہوں نے اسے ضمانت دے دی۔ جسٹس گوگئی 17 نومبر 2019 کو ریٹائرہوں گے جنہوں نے کئی اہم فیصلے سنائے ہیں۔ 2016 میں محض 15 منٹ میں طلاق کے مقدمے کے نپٹارے کا سندیش دیا۔ آتنکی یعقوب میمن کی عرضی پر 30 جولائی 2015 میں آدھی رات سپریم کورٹ نے سماعت کر خارج کیا۔ نربھیا معاملہ میں گناہگاروں کو پھانسی کی سزا،سہارا معاملہ میں صحافی کو جیل بھیجنا، سنیما گھروں میں راشٹریہ گان بجانا، سوسائڈ نوٹ میں کسی ملزم کا نام لکھا ہونا کافی نہیں ہے جیسے فیصلے بھی انہوں نے دئے۔ جسٹس رنجن گوگئی بھارت کے چیف جسٹس بنتے ہیں یا نہیں اس پر تنازعہ تھا سرکار کو تھوڑی قباحت تھی لیکن آخر میں بھلا ہو تو سب بھلا۔ گوگئی کاچیف جسٹس کاعہدہ سنبھالنے پر خیر مقدم ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟