اترپردیش کی خونی خاکی

اترپردیش کی پولیس میں خونخوار پن کیوں ہے اور کیوں بھلے لوگ اس سے بات کرنے اور پاس جانے سے گھبراتے ہیں؟ یہ خطرناک سچ ایک بار پھر اجاگر ہوا ہے۔ لکھنؤ کی راجدھانی میں ایک سپاہی کے ذریعے ایک بے قصور شخص وویک تیواری کو گولی سے اڑادیا۔ پولیس کی بربریت کا شکار دو ننھی بیٹیوں کا یہ والد ہمیشہ کے لئے سو گیا۔ پولیس کی اس ظالمانہ حرکت کی جتنی مذمت کی جائے اتنی کم ہے۔وہ شخص دیر رات قریب پونے دو بجے اپنی ایک خاتون ملازم ساتھی کے ساتھ اپنے آفس سے لوٹ رہا تھا۔ یہ کوئی جرم نہیں تھا۔ اگر اس شخص نے کار نہیں روکی تھی تو بھی اس کی سزا گولی مار دینا نہیں۔اس کا کار کو روکنے کے اور بھی طریقے تھے۔ نمبر پلیٹ کے ذریعے پولیس کارمالک تک پہنچ سکتی تھی لیکن اس کار کی ٹکر سے پولیس کی بائیک گرجانے کے بعد ایک سپاہی نے کار مالک پر سامنے سے جس طرح گولی چلائی وہ پولیسیا روعب و خاکی غنڈہ گردی کی انتہا تھی۔ مانو یہ اس کی بوکھلاہٹ ہی نہ ہو بلکہ سنگین جرم ہوجانے کے بعد سپاہیوں نے جس طرح خود کو بچانے کیلئے جھوٹی کہانی گڑھی وہ تو اور بھی شرمناک ہے۔ سپاہیوں کا الزام تھا کہ کار مالک نے انہیں روندھنے کی کوشش کی۔ ایسے میں اپنی دفاع میں انہیں گولی چلانی پڑی۔ لیکن ایسے میں نہ تو سپاہیوں کے لئے کار سے تیز دوڑ کر گولی چلانا ممکن ہے اور نہ ہی سر میں گولی لگنے کے بعد کسی کے لئے 400 میٹر تک کار چلانا ممکن ہے۔ واردات بہت بڑی تھی تو ریاستی سرکار بھی فوراً حرکت میں آگئی۔ موبائل ایپل کمپنی کے منیجر وویک تیواری قتل کانڈ میں ریاست کے قانون منتری برجیش پاٹھک نے مانا کے کچھ بڑے پولیس افسر معاملہ کو دبانے اور ثبوتوں سے چھیڑ چھاڑ اور لیپا پوتی میں لگے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سرکار بے قصور کے قتل کرنے والے پولیس ملازمین سمیت کسی بھی بدمعاش کو معاف نہیں کرے گی۔ وزیر اعلی آدتیہ ناتھ یوگی نے بھی فون پر وویک تیواری کے رشتے داروں سے بات کر دکھ جاتا اور سپاہیوں کو برخاست کرکے جیل بھیج دیا گیا ہے لیکن سپاہیوں کی سزا وویک کی بیوی اور بیٹیوں کے زندگی بھر کے لئے اذیت اور دیکھ کے سامنے کچھ نہیں ہے۔زندگی ایک پل میں بدل جاتی ہے یہ سچ ہے۔ اس واقعہ کی سچائی کی بانگی ہے۔ واردات کے بعد جس طرح سے لکھنؤ سے لیکر دہلی تک سیاسی پارٹیاں ٹڈی کی طرح ہمدردی کا کاروبار کرنے پر کود پڑی ہیں وہ اور بھی شرمناک ہے۔ اترپردیش میں سپاہی گولی مارتے ہیں اور ممبر اسمبلی تھپڑ، یہ پہچان بن گئی دیش کے سب سے بڑے صوبے اترپردیش کی۔ پولیس کی دنگائی کی یہ اکیلی مثال نہیں ہے آئے دن پولیس کی بربریت کے ایسے معاملے سامنے آتے رہتے ہیں۔ دکھ سے کہنا پڑتا ہے یوگی آدتیہ ناتھ اور ان کے وزیر پولیس کو کنٹرول کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ یہ بدقسمتی ہے کہ جو پولیس عام لوگوں کی حفاظت کے لئے ہے وہ دبنگئی ، نا جائز وصولی اور غیر سنجیدگی کی علامت بن گئی ہے۔ یہاں تو سپریم کورٹ کی ہدایت کو بھی نظر انداز کیا جارہا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟