ڈونلڈ ٹرمپ نے ایشیائی دورہ سے کیا حاصل کیا

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایشیا کے پانچ ملکوں کے دورہ سے ڈپلومیٹک مبصر ان کے رویئے کو سمجھنے میں الجھے ہوئے ہیں۔ اس علاقے میں ایسے لوگ ہوسکتے ہیں جو ٹرمپ کے دورہ سے ہوئے بڑے فائدہ کی بات پر یقین رکھتے ہوں لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ امریکہ کو بھی اس کا کچھ فائدہ ہو۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ٹرمپ جہاں کہیں بھی گئے وہاں ان کا خیر مقدم کسی شہنشاہ کی طرح ہوا۔ بیشک ٹرمپ کو اپنی تعریف اچھی لگتی ہو، خاص کر گھریلو محاذ پر ہورہی نکتہ چینیوں کے پیش نظر غیر ملکی زمین پر اگر ٹرمپ کا شاہی خیر مقدم کیا جاتا ہے تو وہ ایک زیر وقار مہمان کی طرح پیش آتے ہیں۔ انسانی حقوق اور جمہوریت جیسے پریشان کرنے والے اشو سے ٹرمپ کنارہ کرچکے ہیں۔ نارتھ کوریا نے صدر ٹرمپ کو بوڑھا اور سٹھیا ہوا کہہ کر بار بار مذاق اڑایا توٹرمپ نے جواب میں کم جونگ ان کو ناٹا اور موٹا کہا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ایشیا کے جن ملکوں کے دورہ پر ٹرمپ گئے ان نیتاؤں نے سادگی اور بڑے ادب سے میزبانی کی۔ جاپان کے وزیر اعظم شینجوآبے نے کہا گولف کھیلنے کے لئے ٹرمپ ان کے پسندیدہ ساتھی ہیں۔ ساؤتھ کوریا کے صدر نے ٹرمپ سے کہا کہ وہ امریکہ کو پہلے سے مہان بنا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ سولکی نیشنل اسمبلی مون نے ٹرمپ کو عالمی لیڈر کہہ کر متعارف کرایا۔ ہنوئی میں خیر مقدمی تقریر کے بعد ٹرمپ ویتنام کے صدر کے بغل میں کھڑے ہوئے لیکن انہوں نے اظہار آزادی، انسانی حقوق رضاکاروں اور بلاگروں کی گرفتاری پر کچھ نہیں کہا۔بیجنگ میں وہ صدر شی جنگ پنگ کے ساتھ کھڑے ہوئے، انہوں نے تنقید میں ایک لفظ نہیں کہا۔ حالانکہ چین کا دورہ ٹرمپ کے لئے تھوڑا الگ ضرور رہا۔ چین میں بھی شی جنگ پنگ ٹرمپ کی تعریف نہیں کررہے تھے بلکہ وہاں اس کا الٹا ہو رہا تھا۔ چین میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا کہ ٹرمپ کو تعریف ملی ہو۔ بیجنگ میں اس کا کوئی موقعہ بھی نہیں تھا کہ انہیں عالمی لیڈر کہہ کر بلایا جائے۔ واقف کاروں کے مطابق ٹرمپ یہ سمجھتے ہیں کہ چین کے ساتھ الجھنے سے خراب نتیجے ہوسکتے ہیں لیکن ان دونوں لیڈروں کے چہرے پر جو مسکراہٹ دکھائی دی اس کے پیچھے تگڑی سودے بازی چل رہی تھی۔ اس کا انداز اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ٹرمپ نے ساؤتھ چائنا سی کے اشو پر جوں کے توں پوزیشن بنائے رکھنے کی پیشکش کی ہے۔ حالانکہ ساؤتھ چائنا سی کے اشو پر امریکہ نے ابھی کوئی موقف نہیں اپنایا ہے لیکن بغیر کسی روک ٹوک کے آنے جانے کے حق کی حمایت کرتا ہے۔ چین کو چھوڑ کر باقی دیشوں نے ٹرمپ کا زور دار خیر مقدم کیا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟