گیارہویں کے طالبعلم نے پردیومن کو مارا

گوروگرام میں رائن انٹر نیشنل اسکول کے ایک بچے پردیومن کے قتل کے معاملہ میں سی بی آئی نے جوتازہ انکشاف کیا ہے وہ چونکانے والا ہے۔ رائن انٹرنیشنل اسکول کے طالبعلم پردیومن کے قتل کے ٹھیک دو مہینے بعد کیس میں نیا موڑ آگیا ہے۔ سی بی آئی نے پولیس کی ہر تھیوری کو مسترد کرتے ہوئے دعوی کیا کہ اسکول کے گیارہویں کے ہی ایک طالبعلم نے پرینٹس ٹیچر میٹنگ اور امتحان ٹلوانے کے لئے پردیومن کا قتل کیا۔ ملزم 16 سالہ طالبعلم کو منگلوار کی رات ساڑھے گیارہ بجے حراست میں لے لیا گیا۔ اس کو جوئنائل کورٹ نے تین دن کے ریمانڈ پر سونپ دیا۔ سی بی آئی کے مطابق اس نے اپنا جرم قبول کرلیا ہے۔ اس سے پہلے ہریانہ پولیس نے اسکول بس کے کنڈیکٹر اشوک کمار کو قتل کا ملزم بنایا تھا۔ ہریانہ پولیس نے دو اشوک کمار کو ایک طرح سے قاتل بھی قراردے دیاتھا۔ پولیس نے کنڈیکٹر کے اقبال نامہ کے ساتھ یہ نتیجہ پیش کیا تھا کہ اس نے بچے کا جنسی استحصال کرنے کے ارادے سے اسے پکڑا اور ناکام رہنے پر بچے کو گلا کاٹ کے مارڈالا۔ اس سے سماج میں غصہ پھیلنا فطری ہی ہے لیکن تب بھی کئی لوگوں نے پولیس کے نتیجے پر سوال اٹھائے تھے یہاں تک کہ خود پردیومن کے والد نے کہا تھا کہ پولیس نے جس شخص کو اہم ملزم بنایا ہے وہ اصلی مجرم کو بچانے کی کوشش ہے۔ آخر سی بی آئی کو کنڈیکٹر کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا۔ سوچئے اتنے دنوں تک اشوک کمار اور اسکے خاندان پر کیا گزری ہوگی؟ اس نے جوبھی جنسی اور ذہنی اذیت جھیلی ہے اس کی تکمیل کیا اس سسٹم میں ممکن ہے؟ حکام کے مطابق طالبعلم نے امتحان اور پی ٹی ایم کو ٹلوانے کے لئے اس واردات کو انجام دیا لیکن زیادہ حیران کرنے والی بات یہ ہے کہ اس منظم قتل میں نشانہ پر پردیومن نہیں تھا۔ پوچھ تاچھ کے دوران ملزم طالبعلم نے بتایا کہ مجھے سمجھ میں نہیں آیا کہ میں پوری طرح سے زیرو ہوگیا تھا اور میں نے اسے مار ڈالا۔ تشویش کا باعث یہ بھی ہے کہ گیارہویں میں پڑھ رہا ایک لڑکا صرف اس لئے بچے کی جان لے لیتا ہے کہ اسے ڈر ہے کہ وہ کہیں فیل نہ ہوجائے۔ امتحان ٹلوانے کے لئے وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہوگیا یہ کیسا تعلیمی نظام ہے جو ایک بچے کو اچھی انسانیت نہیں بلکہ نمبر لانے والی مشین بنانے چاہتا ہے۔ اب نئے قانون کے تحت ملزم طالبعلم کو ممکنہ طور پر بالغوں کے برابر مانا جائے لیکن جانچ کے دوران ایسے اشارے بھی سامنے آئے ہیں اور موقعہ واردات کے آس پاس ملزم طالبعلم کے علاوہ کئی لوگ موجود تھے۔ اگر ایسا ہے تو اسکول مینجمنٹ بھی کٹہرے میں کھڑا ہوتا ہے۔ اس نے جانچ بوجھ کر معاملہ پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی تھی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟