ہماچل میں بمپر ووٹنگ کس کے حق میں جائے گی
ہماچل پردیش میں اسمبلی چناؤ کیلئے اس بار بمپر ووٹنگ ہوئی ہے،خاص کر صوبے کی 20 سیٹوں پر۔ ان وی آئی پی نشستوں پربھاری پولنگ سے چناؤ لڑ رہے امیدواروں کی دھڑکن بڑھ گئی ہے۔ کانٹے کی ٹکر والی ان سیٹوں پر 2012 کے چناؤ سے زیادہ پولنگ کے کئی سیاسی معنی نکالے جا رہے ہیں۔ رائے دہندگان نے سرکردہ لیڈروں کے ساتھ سیاسی پنڈتوں کوبھی الجھن میں ضرور ڈال دیا ہے۔ وزیر اعلی ویربھدر سنگھ کے بیٹے وکرم آدتیہ سنگھ کی سیٹ شملہ دیہات میں اس بار ریکارڈ 13 فیصد سے زیادہ ووٹنگ ہوئی ہے۔ پہلی بار چناوی میدان میں اترے وکرم آدتیہ سنگھ کا مقابلہ ویر بھدر سنگھ کے خاص رہے پرمود شرما سے ہے۔ ویربھدر اور پریم کمار دھومل کی سیٹوں پر بھی بھاری پولنگ ہوئی ہے۔ دونوں لیڈر نئی سیٹوں سے اترے ہیں۔ وزیر سدھیر شرما، جی ایس بالی، مکیش اگنی ہوتری اور کول سنگھ ٹھاکر کی سیٹوں پر اس بار زیادہ پولنگ ہوئی ہے۔ بلاسپور، منڈی، جوگندر نگر، شاہ پور، نودان، شملہ شہر اور ناہن میں بھی پہلے سے زیادہ ووٹ پڑے ہیں۔ ان میں کانٹے کی ٹکر مانی جارہی ہے۔ ادھر پالمپور، سراج، بنجار، ٹھیوک اور سولن بھی ریاست کی اہم ترین سیٹوں میں شمار رہی ہے لیکن ان سیٹوں پر پولنگ پہلے سے کم ہوئی ہے، کیا ہماچل میں کانگریس سال2012 کی اپنی کارکردگی کو دوہرائے گی یا بھاجپا اقتدار پر سوار ہوگی؟ ریکارڈ توڑ پولنگ کے بعد بھاجپا چار فیصدسے زیادہ سیٹوں پر جیت کا دعوی کررہی ہے۔ وہیں کانگریس اپنے رینک میں تبدیلی کرنے کے لئے مشن رپیٹ کا راگ الاپ رہی ہے، دونوں بھاجپا ۔ کانگریس پارٹیوں میں سے کوئی بھی سال 1990 سے لیکر اب ت پردیش میں دوبارہ اقتدار پر قابض نہیں ہوا ہے۔ چناوی تھکان کے باوجود جہاں امیدوار اپنی اپنی جیت کا اندازہ لگانے میں مصروف ہیں اور پولنگ کے نمبر اکھٹے کررہے ہیں۔ ہماچل میں ریکارڈ توڑ پولنگ ہونے سے کئی سرکردہ شخصیتوں کی لاج داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ ویسے تو اس بار پورے پردیش میں ہی بھاری پولنگ درج کی گئی ہے لیکن اس کے باوجود 20 اسمبلی سیٹوں پر بمپر ووٹنگ ہوئی ہے۔ ان سیٹوں پر زیادہ ووٹنگ سرکار کے حق میں جائے گی یا پھر مخالفت میں یہ تو آنے والی 18 دسمبر کو مشینوں کی سیل ٹوٹنے کے بعد ہی پتہ چل پائے گا۔ بمپر ووٹنگ مودی لہر کے حق میں ہے یا مودی لہر کی مخالفت میں یہ پتا چلے گا اگلے مہینے۔ بھاجپا ہماچل میں 50 سیٹیں حاصل کرنے کا دعوی کررہی ہے۔ پچھلے اعدادو شمار بتا رہے ہیں کہ بھاجپا اس سے پہلے کبھی 50 سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائی تھی۔ووٹ اب ای وی ایم میں بند ہے اور 18 دسمبر تک لمبے انتظارکے بعد پتہ چلے گا کون جیتا کون ہارا ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں