غیر ملکی اکنامک ریٹنگ ایجنسی کی نظر میں نوٹ بندی

ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی خود اعتمادی سے لبا لب ہیں۔ وہ مانتے ہیں کہ یہ گلاس جو آدھا خالی ہے اس خالی حصے کی ہوا کو بھی بھارت کی بھولی جنتا کو بیچ سکتے ہیں۔ پانی کو بیچ دیں گے اور ہوا کو بھی۔ نوٹ بندی سے کالا دھن تو ختم ہونے سے رہا لیکن مودی جی نوٹ بندی کو جنتا میں کامیاب کر کے دکھانے کی کوشش ضرور کررہے ہیں۔یہی ان کیا سیاسی فن ہے۔ کالا دھن ختم نہیں ہوگا لیکن وہ اسے ختم ہوتا دکھا رہے ہیں۔ لوگوں کو راغب کرنے کی ان کا مارکٹنگ فن اندرا گاندھی، نہرو سے بھی کئی معنوں میں لاجواب ہے۔ کیونکہ 56 انچ کی چھاتی کے راشٹرواد سے وہ سنگھ پریوار کے تام جھام، ماں کی ممتا، تیا گ کا پرچار اور سوشل میڈیا کے ایسے فائدے ہیں جو کسی سابقہ وزیر اعظم کو نہیں حاصل تھے۔ پورے معاملے کاجادو منتر یہ ہے کہ اگر مارکٹنگ ٹھیک ہے تو سونا ، کوئلہ بنا دیں گے او کوئلہ سونا ۔ غریب کی سفید نقدی کالی ہوگئی ہے اور امیر کے کالے نوٹ سفید ہوں گے۔ تب بھی مودی مودی کے نعرے ان کی ریلیوں میں لگیں گے۔ بھارت کی عوام کی جیب خالی کردی لیکن مودی جی کی تقریر فن اور لاجواب ہمت کا غیر ملکی فائننشیل سروسز پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔ امریکی ریٹنگ ایجنسی موڈیز ہندوستان کی اقتصادی حیثیت کو بڑھانے کو تیار نہیں ہے۔ یعنی کالے دھن کے خلاف ان کے ذریعے اٹھائے گئے نوٹ بندی اور دوسرے اقدامات پر ابھی دنیا کے نامور اقتصادی ادارے کوئی فیصلہ نہیں دیناچاہتے بلکہ انہیں اس کے اثرات کا انتظار ہے۔اس کے برعکس سرکار بے چین ہے۔ اس کی عالمی اقتصادی پوزیشن کی مانیتابڑھے اور سرمایہ کاری آئے۔ موڈیز نے 16 نومبر کو لکھے اپنے خط میں صاف کہا ہے کہ حکومت ہند کی کوششوں سے ابھی وہ مقصد حاصل نہیں ہوسکا جس کی بنیاد پر ریٹنگ بہتر بنائی جاسکے۔ موڈیز دیش پر لمبے قرض اور بینکوں کی بری مالی حالت کو کمزور ریٹنگ کی وجہ مانتی ہے۔ اس نے جائزہ پیش کیا ہے کہ بینکوں کے 136 ارب ڈالر ڈوب رہے ہیں اور سرکار کا قرض بھلے ہی گھٹا ہو لیکن اس کا سود کافی بڑھ گیا ہے۔ فائننشیل سروسز دینے والی گلوبل فرم مارگن اسٹین لی کا ماننا ہے کہ نوٹ بندی سے انڈین اکنامی کو کوئی فائدہ ہونے والا نہیں ہے۔ اگر سرکار کرپشن کو روکنا چاہتی ہے تو اس کے لئے نوٹ بندی ناکافی ہے۔ کرپشن کو روکنے کے لئے سرکار کو دوسرے قدم اٹھانے ہوں گے۔ مارگن اسٹین لی کے مطابق بحران کے وقت میں ہی نوٹ بندی کا استعمال ہوتا ہے اور اس میں دو رائے نہیں ہے کہ نوٹ بندی کے ذریعے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش ہورہی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟