فی الحال نوٹ بندی کا نقصان۔ فائدہ کس کو

اگر ہم یہ کہیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے نوٹ بندی کرکے نہ صرف اپنا سیاسی مستقبل داؤ پر لگادیا ہے بلکہ اپنی پارٹی کا بھی مستقبل کافی حد تک نوٹ بندی کی کامیابی پر ٹک گیا ہے۔گزشتہ دنوں میری ایک سینئر بھاجپا لیڈر سے بات ہورہی تھی پہلے تو وہ مودی جی کی تعریفوں کے پل باندھ رہے تھے پھر مان گئے کہ بات اتنی آسان نہیں ہے، جتنی بتائی جارہی ہے۔ لمبی بحث کرتے ہوئے انہوں نے کچھ لمبی سانس لی ،بولے کہ ایسا ہے یہ سمجھ لو کہ مودی جی نے خود کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ ساتھ ہی فی الحال پارٹی بھی داؤ پر لگ گئی ہے۔آخر کار کہنے لگے کہ اچھا خاصہ معاملہ جما ہواتھا پی او کے میں سرجیکل اسٹرائک کا اثر سال بھر تک نہیں ختم ہونا تھا، اس کا فائدہ پارٹی کو ملتا۔ پانچ ریاستوں کے اسمبلی چناؤ تو نمٹ جانے دیتے؟ اب اپنی امیج اور پارٹی دونوں کے لئے سوال کھڑے ہوگئے ہیں۔ دیش کے اندر جو حالات ہیں وہ سب کے سامنے ہیں لیکن اب تو بیرونی ممالک میں بھی نوٹ بندی پر سوال کھڑے کئے جارہے ہیں۔ نوٹ بندی کا ونر فی الحال کون ہے؟ وہ جمع خور جنہوں نے اپنے جمع کئے ہوئے ہر نوٹ کو سفید کرلیا، کالے دھن کو سفید کرنے والے دلال، کرپٹ بینک ملازمین کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا۔ وہ بینک افسر جنہوں نے پرانے نوٹوں کے بدلے نئے نوٹوں کے بنڈل ٹیکس چوروں و کرپٹ افسروں کو دئے۔ یہ سارے عناصر خیالی طور سے کامیاب ہوئے اور انہوں نے عام طور پر یہ پکا کردیا کہ15,44000 کروڑ روپے کے رقم کا ہر ایک روپیہ بینکنگ سسٹم میں لوٹ جائے گا۔ ہارا کون؟ اوسطاً آدمی جسے اپنے ہی کھاتے کا پیسہ نکالنے کے لئے بار بار بینک جانے کے لئے مجبور کیا جارہا ہے۔ وہ شخص جس کے پاس کچھ پرانے نوٹ تھے اور کسی بینک شاخ تک نہیں پہنچے تھے(دوری کے سبب) اور جسے کم قیمت پر اپنے نوٹ بدلنے پڑے۔ وہ گرہستن جسے تھوڑے پیسوں کے لئے ہاتھ پھیلانے پڑ گئے تاکہ وہ دن میں کم سے کم ایک بار خاندان کے کھانے کا انتظام کرسکے۔ وہ مریض جو پاس میں پیسہ نہ ہونے سے اپنا علاج نہیں کرا سکا۔ وہ طالبعلم جس کے پاس کھانے کے لئے قریب کے گرودوارے کے لنگر کا سہارا لینے کے سوائے کوئی سہارا نہ تھا، وہ کسان، جس کے پاس بیج یا کھاد خریدنے یا مزدور کو مزدوری دینے کے لئے پیسہ نہیں تھا اور اس طرح جس کی پیدوار ماری گئی۔ کالے دھن پر لگام کسنے کیلئے لئے گئے نوٹ بندی کے فیصلے پر دوسرے ممالک میں بھی بحث چھڑی ہوئی ہے۔کئی ممالک کے بڑے اخبارات نے اس پر اپنی رائے ظاہر کی ہے۔ نیویارک ٹائمس نے لکھا ہے بھارت میں غلط پالیسیوں سے بنتا کالادھن ، ظاہر طور پر بھارت میں ڈیمونیٹائزیشن ، کرپشن، دہشت گردی کی مالی مدد اور مہنگائی کو قابو کرنے کیلئے لاگو کی گئی تھی لیکن یہ بازار کے خراب حالات کی ادائیگی اور کم وقت کو ذہن میں رکھ کر بنائی گئی پالیسی ہے۔ اس کے ناکام ہونے کا اندیشہ ہے۔ اس کا اثر درمیانہ اور مختلف درمیانے طبقات کے ساتھ غربا کے لئے بھی درد بھرا ہے۔امریکہ کے سابق وزیر مالیات لارینس ایچ سمرس نے بھی اس فیصلے پر شبہ ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ یہ قدم کرپشن روکنے میں بھی پوری طرح اہل نہیں ہے۔ دوسرے اخبار ’دی گارجین‘ نے لکھا ہے کہ بھارت میں لائن لگاکر پیمنٹ کے اس جگاڑ کا خیر مقدم کیا جارہا ہے یہ حیرت انگیز ہے ۔ ایک دوسرے اخبار ’فری ملیشیا‘ کے مطابق بھارت آنے والے سیاحوں کو بھی مودی سرکار کے اس قدم سے کافی پریشانی ہورہی ہے کیونکہ منی چینجرس نے نوٹ بندلنا بند کردیا ہے۔ سنگا پور کے مقامی اخبار ’دی اسٹیٹس ٹائم‘ کے مطابق وہاں پر کافی لوگ پرانے ہندوستانی نوٹوں کو بدلنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن نہ تو بینک اور نہ ہی پیسہ بدلنے والے پرانی ہندوستانی کرنسی کو قبول کررہے ہیں۔ اخبار کے مطابق حکومت ہند کے اس قدم کا اثر صرف بھارت میں ہیں نہیں دیگر ممالک پر بھی پڑے گا۔ آخر میں نیپال کے اخبار ’کاٹھمنڈو پوسٹ‘ کے مطابق سینٹرل بینک، دی نیپال نیشنل بینک نے بھی بھارت میں بند ہوئے نوٹوں پر نیپال میں پابندی لگا دی ہے۔ اس کا اثر نیپال میں کاروبار میں بڑے پیمانے پر پڑ رہا ہے، کیونکہ وہاں ہندوستانی کرنسی بہت زیادہ چلن میں ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!