نوٹ بندی کے 50 دن:کیا کھویا کیا پایا۔۔۔2

15.4 لاکھ کروڑ روپئے مالیت کے 500-1000 کے پرانے نوٹوں میں قریب14 لاکھ روپئے واپس بینکوں میں جمع کرائے جاچکے ہیں۔وزیر اعظم نریندر مودی نے 8 نومبر کو 500-1000 کے نوٹ کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا تب حکومت کو امید تھی کہ نوٹ بندی کے اس فیصلے سے اسے کئی محاذ پر فائدہ ہوگا۔ امید یہ تھی کہ کالی کمائی کی شکل میں رکھے گئے کم سے کم 3 لاکھ کروڑ روپئے مالیت کے پرانے نوٹ واپس نہیں ہوں گے۔ ایسا ہونے پر ریزرو بینک آف انڈیا حکومت کو اچھا خاصہ فائدہ دیتی لیکن یہ امید پوری ہوتی نہیں دکھائی دے رہی ہے۔ بینکوں میں جمع نوٹ کی مقدار سے ایسا لگتا ہے کہ لوگوں نے کالے دھن کو سفید کرنے کا راستہ نکالنے میں کامیابی حاصل کرلی۔ اب سرکار اس بات پر خوش ہوسکتی ہے کہ اسے2.5 لاکھ روپئے کی حد سے اوپر جمع ہوئے روپیوں پر بھاری بھرکم ٹیکس ملے گا۔ حکومت کو ایک اور فائدہ اس لحاظ سے بھی نظر آرہا ہے کہ گھروں میں رکھی گئی چھوٹی موٹی بچت کی رقم بینکوں میں آجانے سے معیشت کو مضبوطی ملے گی۔ نوٹ بندی کے اعلان کو بدھ کے روز 50 دن ہوگئے ہیں۔ ان 50 دنوں میں 14 لاکھ کروڑ سے زائد نوٹ بینکوں میں واپس آچکے ہیں یعنی 91 فیصد سے زیادہ جبکہ اس دوران صرف 6 لاکھ کروڑ روپئے کے پرانے نوٹ سسٹم میں موجودہ ہونے کا دعوی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی دیش قطاروں میں کھڑا ہوا ہے۔ میڈیا میں ایک سروے شائع ہوا ہے اس میں 1300 سے زیادہ دیہات میں زیادہ تر لوگ فیصلے کی حمایت میں دکھائی دئے لیکن ساتھ ہی ان کا کہنا ہے کہ 50 دن بعد بھی ان کی مشکلیں جوں کی توں ہیں۔ کیش لیس اکنامی کی طرف بڑھنے کے سرکاری دعوے بھی کمزور نکلے۔ ڈیجیٹل ٹرانزیکشن پر نظر رکھنے والے سرکاری ادارے ایم پی سی آئی کے اعدادو شمار کی مانیں تو نومبر میں ڈیجیٹل ٹرانزیکشن 15 فیصد گھٹا ہے۔ حالانکہ اے ٹی ایم جیسی کمپنیاں300 فیصد اضافے کی بات کررہی ہیں۔ بات کالے دھن کی کریں تو اس دوران محکمہ انکم ٹیکس نے 678 چھاپے مارے ۔ اس میں 3600 کروڑ روپے کا ہی کالا دھن پکڑا۔ نوٹ بندی کی سب سے زیادہ متاثر ہماری دیہاتی سرزمین ہے۔ پانچ ریاستوں کے 1310 گاؤں میں سروے سے پتہ چلا ہے 61 فیصد دیہات میں اے ٹی ایم نہیں ہے۔ 86 فیصد گاؤں میں سوائپ مشین نہیں ہے۔ کیش لیس ٹرانزیکشن انٹر نیٹ سہولت پر منحصر ہے۔ بھارت میں کل 26 فیصد علاقے میں انٹرنیٹ سہولت ہے۔ دہلی میں انٹرنیٹ کا تجربہ ہے کہ یہ کتنا چلتا ہے ،کس اسپیڈ پر چلتا ہے، یہ سب کو پتہ ہے۔ اس لئے جب شہروں میں یہ سہولت ٹھیک نہیں ہے تو دیہات میں کتنی کارگر ہوگی آپ خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اب بات کرتے ہیں غیر ملکی سرمایہ کاروں کی۔ غیر ملکی چھوٹے سرمایہ کاروں کی،8 نومبر کے بعدسے اکویٹی مارکیٹ میں تقریباً 10 ارب ڈالر یعنی 68 ہزار کروڑ روپئے کی فروختگی کرچکے ہیں۔ یہ 2013ء کے بعد دو مہینے کی میعاد میں ان کی طرف سے ہوئی سب سے بڑی فروختگی میں ایک ہے۔ نوٹ بندی کے اعلان کے بعد بینکنگ سسٹم میں نئے نوٹ آتے رہنے کے باوجود اے ٹی ایم کے باہر لوگوں کی لائن چھوٹی نہیں ہوپارہی ہے کیونکہ کچھ کرپٹ بینک منیجر اور افسر کالی کمائی کو سفیدکرنے میں لگے ہیں۔ ان بینکروں نے بلیک منی والوں کا ساتھ دینے کے لئے کئی طرح کے ہتھکنڈے اپنائے۔ صحیح کسٹمر کی پہچان چرانا، کئی گراہکوں کی طرف سے جمع کرائے گئے پین کارڈ اور شناختی کارڈ جیسے دستاویزوں کا استعمال چوری چھپے لین دین میں کیا گیا۔ اے ٹی ایم کے پیسے کی ہیرا پھری، بینک حکام نے اے ٹی ایم سروسز ایجنسیوں کے ساتھ مل کر اے ٹی ایم کے لئے بھیجے گئے نوٹوں (نئے)کے ذریعے کالے دھن کو سفید کیا ہے۔ جن دھن کھاتوں کا غلط استعمال،ہر بینک میں 10سے15فیصدی جن دھن کھاتوں کا استعمال کالے دھن کو سفید کرنے میں ہوا۔ ایسا کرنے والے بینکر اب سی بی آئی کے نشانے پر ہیں۔ ڈیمانڈ ڈرافٹ کی جعلسازی، بینک افسران نے کالے دھن کو سفید کرنے کیلئے جن طریقوں کا سب سے زیادہ استعمال کیا ان میں ایک یہ بھی ہے ۔ کمیشن خور کیشئروں نے کمیشن لے کر پرانے نوٹوں کو نئے نوٹوں میں بدل دیا۔ زیادہ تر دیہی علاقوں میں بینک گئے غریب اور ناخواندہ لوگوں کو ٹھگا گیا۔ فرضی کھاتے کھولے گئے۔ کچھ معاملوں میں جن ایماندار اکاؤنٹ ہولڈروں کی آئی ڈی پروف بینکروں کے ہاتھ لگے، ان کے نام پر کھاتے کھول کر اس کے ذریعے پیسے میں ہیرا پھیری کی۔ نوٹ بندی کے بعد بینکوں نے کالادھن کے بدلے نئے نوٹ بدلنے میں شادی کے ہتھیار تک کا استعمال کیا۔ شادی کا کارڈ ڈالتے ہی 2.50 لاکھ روپئے بدل گئے۔ اس کے لئے الگ الگ آئی ڈی کا استعمال کیا گیا۔ یہاں تک کہ قرضہ کے لئے جمع فارم میں لگائے گئے آئی ڈی کابیجا استعمال کیا گیا۔ کچھ بینک افسر۔ ملازمین نے 25سے30 فیصد کمیشن کے لالچ میں گھر تک نئے نوٹ پہنچانے کا استعمال کیا تھا۔ سب سے زیادہ دھاندلی ایکسیس بینک کی 10 برانچوں میں کی گئی۔ اس دوران کئی تنازعہ کھڑے ہوگئے۔ نوٹ بندی پر وزیر اعظم سے وضاحت کی مانگ پر اپوزیشن نے پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس کو نہیں چلنے دیا اور دیش کو کروڑوں روپئے کا نقصان ہوا۔ ادھوری تیاریوں کے الزامات کے ساتھ ریزرو بینک کے بار بار نئے حکم جاری کرنے سے بینک کی ساکھ بھی متاثر ہوئی ۔ انٹر نیشنل کریڈٹ ایجنسیوں نے ہندوستان کی ترقی شرح گرنے کی بات کہی۔ بھاجپا ممبر اسمبلی ایک ویڈیو میں کہتے ہوئے دکھائی دئے کہ مرکزی سرکار کے نوٹ بندی کے فیصلے کے بارے میں دو بڑے صنعت کاروں کو پہلے سے معلومات تھی۔ حالانکہ بعد میں وہ اس بیان سے مکر گئے۔ ہمارے خاندان میں دادا جی سے لیکر مجھ تک یہی روایت رہی کہ ہمیشہ جنتا کے مفادات میں آواز اٹھاؤ، وہ بھی بغیر کسی لاگ لپیٹ کے۔ میں نے ایسا ہی کرنے کی کوشش کی ہے۔ قارئین جانتے ہیں کہ میں نے پہلے دن سے جن مقاصد کو لیکر نوٹ بندی کی گئی تھی ان پر اندیشہ ظاہر کیا تھا۔ آج بھی اپنے موقف پر قائم ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ دیش میں بلیک منی بند ہو، کالے دھندے بند ہوں، کرپشن ختم ہو لیکن ان طریقوں سے شاید ہی کامیابی ملے؟ اگر ہمیں ان مقاصد کو پانا ہے تو کئی قدم اٹھانے ہوں گے اور سرکار کے سامنے کئی چیلنج ہیں۔ ان میں 95 کروڑ ہندوستانیوں کے پاس اب بھی انٹرنیٹ نہیں پہنچ سکا، انٹر نیٹ رفتار کے معاملے میں بھی بھارت 3.5 ایم وی پی ایس کے ساتھ عالمی رینکنگ میں 113 ویں مقام پر ہے۔ نئے نوٹوں کی چھپائی کے باوجود درکار تعداد میں نقدی عام لوگوں تک نہیں پہنچ پارہی ہے۔ آر بی آئی کے تخمینہ اقتصادی ترقی کی شرح 7.6 سے 7.1 پر آچکی ہے۔ ایشیائی ڈیولپمنٹ بینک نے بھی ترقی شرح میں کمی بتائی تھی۔ ایسوچیم2017ء تک موبائل جعلسازی میں 65 فیصدی بڑھنے کا اندیشہ جتایا ہے۔ سرکار کے سامنے دھوکہ دھڑی کو روکنا بڑی چنوتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق مارچ 2016ء تک دیش میں صرف 53 فیصدی لوگوں کے ہی بینک کھاتے تھے۔ پورے دیش کو بینک سے جوڑنا ہوگا۔ اب آپ خود فیصلہ کریں کہ نوٹ بندی کے 50 دن میں دیش نے کیا کھویا پایا۔(ختم)
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟