اٹل جی کی شخصیت عہدے سے ہمیشہ بالاتر رہی ہے

سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی دیش کی سیاست کے نایاب لوگوں میں سے ہیں جن کی شخصیت کا قد ان کے عہدے سے ہمیشہ اونچا رہا ہے۔ اٹل جی کثیر خوبیوں کے مالک شخصیت کے دھنی ہیں۔ ایک منجھے ہوئے سیاستداں ،مثالی منتظم اور ادیب ، کوی ،پختہ نظریات کے عوام کے ہیرو ہیں۔ جن کے لئے آج بھی لوگوں میں عزت اور محبت ہے۔ اٹل جی کو بچپن سے ہی ادیب اور صحافی بننے کی تمنا تھی۔ پڑھائی پوری کرنے کے بعد اٹل بہاری واجپئی نے صحافت میں اپنا کیریئر شروع کیا۔ انہوں نے راشٹر دھرم، پانجنہ اور ویر ارجن اخبارات کو ایڈٹ کیا۔ اپنی باصلاحیت طریقہ کار سے سیاست کے ابتدائی دنوں میں ہی انہوں نے اپنا رنگ جمانا شروع کردیا تھا۔ اٹل جی سے میرے اچھے رشتے اور روابط رہے ہیں۔ مجھے ان کے ساتھ اقوام متحدہ (امریکہ) انڈونیشیا جانے کا فخرحاصل ہوا۔ اکثر میں ان سے ملتارہتا تھا۔ اگر انہیں میرا کوئی اداریہ پسند نہیں آتا تو وہ فون کرکے اپنی نا اتفاقی کا اظہار کر دیتے۔ عوام اور ان کے پریمی ان کی طبیعت اور موجودہ حالات کے بارے میں اکثر مجھ سے پوچھتے ہیں۔ 25 دسمبر کوان کی 92 سالگرہ پر کافی گہما گہمی رہی۔ صبح صبح وزیر اعظم نریندر مودی اور بھاجپا صدر امت شاہ سمیت پارٹی کے کئی بڑے نیتا انہیں مبارکباد دینے پہنچے۔ وی وی آئی پی آمدورفت کے سبب پورا علاقہ چھاؤنی میں تبدیل تھا لیکن وہیں اسے دیکھ کر اٹل جی ہر آنے جانے والے کو نظریں ٹکا کر دیکھتے رہے لیکن چاہ کربھی کچھ نہیں کہہ پا رہے تھے۔ افسوس جس شخصیت کی آواز کی ساری دنیا قائل تھی اس آواز نے ہی ان کا ساتھ چھوڑ دیا۔ اٹل جی کئی سال سے علیل ہیں اور بستر پر ہیں ۔ صرف اشاروں میں بات کرتے ہیں۔ ان کے چاہنے والے ضرور جانناچاہتے ہیں کہ وہ کیسے دکھائی دیتے ہیں، کیا کھاتے ہیں ، کیا پہنتے ہیں، چل پھر پاتے ہیں یا نہیں، پہچان پاتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ 2004 ء لوک سبھا چناؤ میں بھاجپا کی ہار کے کچھ مہینے بعد ہی سے اٹل بہاری واجپئی سیاسی پس منظر سے تقریباً غائب ہوگئے ہیں۔ بڑھاپا اور بیماری کے چلتے وہ ڈاکٹروں کی نگرانی میں اپنے گھر پر ہی رہنے کو مجبور ہیں۔ اٹل جی کے ساتھ سائے کی طرح رہنے والے شیوکماران کی دیکھ بھال میں لگے ہیں۔ صبح اٹھ کر اٹل جی ہر روز کسرت کرتے ہیں۔ انہیں چار ڈاکٹروں کی ٹیم صبح ایکسرسائز کرواتی ہے ۔ اس کے بعد ڈاکٹروں کے مشورے پر انہیں ناشتہ میں دلیہ، دودھ ، بریڈ اور جوس دیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ بھی سچ ہے کہ وہ خود سے نہیں چل پاتے انہیں اٹھانے بٹھانے کے لئے سہارے کی ضرورت پڑتی ہے۔ انہیں گھر میں ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کے لئے وہیل چیئر کی مدد لی جاتی ہے۔ شیو کمار کے مطابق اٹل جی اب بہت کم بولتے ہیں لیکن ان کا انداز آج بھی وہی ہے۔ وہ اب بھی ٹھہراؤ کیساتھ کوئی بات کہتے ہیں۔ زبان لڑکھڑاتی ہے اس لئے زیادہ اپنی باتیں اشاروں میں کرتے ہیں۔ پوری زندگی سیاست میں کھپا دینے والے اٹل بہاری واجپئی عمر کے اس پڑاؤ میں بھی دیش ۔ دنیا کے حالات جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ شیو کمارنے بتایا کہ پچھلے سال تک وہ اخبارات پڑھ لیا کرتے تھے لیکن اب کمر اور نظر دونوں ہی انہیں یہ عادت چھوڑنے پر مجبور کر چکی ہے۔ ناگزیں سیاست زندگی میں ہمیشہ مشکل اور آسان راستہ ڈھونڈنے والے اٹل جی نے دیش دنیا کے حالات سے واقف رہنے کا راستہ بھی نکال لیا ہے۔ وہ اب ٹی وی اسکرین پر کوئی اچھی خبر دیکھتے ہیں تو ان کے چہرے پر ایک سادگی بھری مسکان دکھائی پڑتی ہے۔ اٹل جی کا حال چال پوچھنے والوں میں لال کرشن اڈوانی، راجناتھ سنگھ شامل ہیں۔ اکثر وہ آتے جاتے رہتے ہیں۔ اڈوانی جی ان کے پاس آکر گھنٹوں بیٹھتے ہیں۔ اٹل جی کو دیکھتے رہتے ہیں۔ کئی بار تو وہ اٹل جی کی نگرانی والے ڈاکٹروں سے بھی بات کرتے ہیں یہ ہے اٹل جی کے دن کی شروعات ۔ اٹل جی کی صحت کو دیکھ کر دکھ ہوتا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟