آخر کیوں ہے’’ تیمور‘‘ نام رکھنے پر اتنا وبال

سوشل میڈیا پر سیف علی خان اور کرینہ کپور کے بیٹے کے نام پر ہنگامہ ہورہا ہے۔ ویسے اپنے بچے کا نام کیا رکھنا ہے یہ تو ماں ۔ باپ و خاندان والوں کا حق ہے لیکن بچے کا نام عام طور پر ایسے آدمی کے نام پر نہیں رکھا جاتا جو کہ صرف اپنے ظلم کے لئے بدنام ہو۔ نام اور بھی رکھے جاسکتے ہیں مثال کے طورپر سکندر، علی، سلطان وغیرہ لیکن تیمور نام اپنی سمجھ میں تو نہیں آیا۔ کیونکہ فلمی ستاروں کی ہر چیز پبلک ہوتی ہے اس لئے سوشل میڈیا پر اس کی جم کر تنقید ہورہی ہے۔
تیمور لنگ آخر کون تھا؟ کیا اسکا نام کوئی اپنے بچے کا نہیں رکھتا جیسے کوئی راون، وبھیشن نہیں رکھتا؟سیف علی خاں اور کرینہ کپور نے اپنے بیٹے کا نام تیمور رکھا تو سوشل میڈیا پر یہ بڑی بحث کا موضوع یوں ہی نہیں بنا۔کئی لوگوں نے بیشک اسے دونوں کا شخصی معاملہ کہاتو کئی لوگوں نے اس بات پر اعتراض جتایا اور کہا کہ ایک ظالم حملہ آور کے نام پر بیٹے کا نام رکھنا غلط ہے۔ آخر تیمور نے بھارت میں ایسا کیا کیا تھا؟ تاریخ داں مانتے ہیں کہ چغتائی منگولوں کے خان تیمور لنگ کا ایک ہی سپنا تھا وہ یہ کہ اپنے آباؤ اجدادچنگیز خاں کی طرح ہی وہ پورے یوروپ اور ایشیا کو اپنے قبضے میں کرلے لیکن چنگیز خاں جہاں پوری دنیا کو ایک ہی سلطنت میں باندھنا چاہتا تھا تیمور کاارادہ صرف لوگوں پر دھونس جمانا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ اس کے فوجیوں کواگر لوٹ کا کچھ مال مل جائے تو اور بھی اچھا۔ چنگیزاور تیمور میں ایک بڑا فرق تھا۔ چنگیز کے قانون میں سپاہیوں کو کھلی لوٹ پاٹ کی مناہی تھی لیکن تیمور کے لئے لوٹ اور قتل عام معمولی باتیں تھیں۔ ساتھ ہی تیمور ہمارے لئے ایک بایوگرافی چھوڑگیا جس سے پتا چلتا ہے کہ ان تین مہینوں میں کیا ہوا جب تیمور بھارت میں تھا۔ عالمی جیت کے چکر میں تیمور 1398 عیسوی میں اپنی گھوڑ سوار فوج کے ساتھ افغانستان پہنچا۔ جب واپس جانے کا وقت آیا تو اس نے اپنے سپہ سالاروں سے مشورہ کیا۔ ہندوستان ان دنوں کافی امیر مانا جاتا تھا۔ 
ہندوستان کی راجدھانی دہلی کے بارے میں تیمور نے کافی کچھ سنا تھا۔ اگر دہلی پر ایک کامیاب حملہ ہو تو لوٹ میں بہت مال ملنے کی امید تھی۔ تب دہلی کے شاہ نصیر الدین محمود تغلق کے پاس ہاتھیوں کی ایک بڑی فوج تھی۔کہا جاتا ہے کہ اس کے سامنے کوئی ٹک نہیں پاتا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ دہلی کی فوج بھی کافی بڑی تھی۔ تیمور نے کہا کہ بس تھوڑے ہی دنوں کی بات ہے اگر مشکل پڑی تو واپس آجائیں گے۔ منگولوں کی فوج سندھ ندی پار کرکے ہندوستان میں گھس آئی۔ راستے میں انہوں نے اسپندی نام کے گاؤں کے پاس پڑاؤ ڈالا۔ یہاں تیمور نے لوگوں پر دہشت پھیلانے کے لئے سبھی کو لوٹ لیا اور سارے ہندوؤں کو قتل کروا دیا۔ پاس ہی تغلق پور میں آگ کی پوجا کرنے والے ایزدیوں کی آبادی تھی آج کل ہم انہیں پارسی کہتے ہیں۔تیمور کہتا تھا کہ یہ لوگ ایک دھرم کو مانتے ہیں اس لئے ان کے سارے گھر جلا ڈالے گئے اور جو بھی پکڑ میں آیا اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ پھر فوجیں پانی پت کی طرف نکل پڑیں۔ پنجاب کے سمانہ قصبہ اسپندی گاؤں اور ہریانہ کے کیتھل میں ہوئے خون خرابے کی خبر سن پانی پت کے لوگ شہر چھوڑ دہلی کی طرف بھاگے اور پانی پت پہنچ کر تیمور نے شہر کو تہس نہس کرنے کا حکم دے دیا۔یہاں بھاری تعداد میں اناج ملا جسے وہ اپنے ساتھ دہلی کی طرف لے گیا۔ راستے میں لونی کے قلعہ میں راجپوتوں نے تیمور کو روکنے کی کوشش کی۔ اب تک تیمور کے پاس کوئی ایک لاکھ ہندو بندھی تھے۔ 
دہلی پر چڑھائی کرنے سے پہلے تیمور نے ان سبھی کو قتل کرنے کا حکم دیا۔ یہ بھی حکم ہوا کہ اگر کوئی سپاہی بے قصوروں کو قتل کرنے سے ہچکچائے تو اسے بھی موت کے گھاٹ اتا دیا جائے۔ اگلے دن دہلی پر حملہ کر نصیر الدین محمود کو آسانی سے ہرا دیاگیا۔محمود ڈرکر دہلی چھوڑ جنگلوں میں چلا گیا اور وہاں جا چھپا۔ دہلی میں جشن مناتے ہوئے منگولوں نے کچھ عورتوں کو چھیڑا تو لوگوں نے اس کی مخالفت کی ۔ اس پر تیمور نے دہلی کے سبھی ہندوؤں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر قتل کر وا دیا۔ چار دن تک دہلی شہر خون سے رنگا گیا۔ اب تیمور دہلی چھوڑ کر ازبکستان کی طرف روانہ ہوا۔ راستے میں میرٹھ کے قلعہ دار الیاس کو ہرا کر تیمور نے میرٹھ میں بھی تقریباً 300 ہزار ہندوؤں کا قتل کروایا۔ یہ سب کرنے میں اسے محض 3 مہینے لگے اور ان تین مہینوں میں اس نے ہزاروں ہندوؤں ، مسلمانوں و پارسیوں کا قتل کروادیا۔ دہلی میں وہ 15 دن ہی رہا پر ان 15 دنوں میں اس نے دہلی کو اجاڑدیا۔ سینکڑوں عورتوں کا بلاتکار کرایا۔ اب آپ بتائیں کہ کوئی بھی سمجھدار شخص’’ تیمور‘‘ کے نام پر اپنے بچے کا نام رکھ سکتا ہے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟