جاتے جاتے اوبامہ نے اسرائیل کو دیا جھٹکا

امریکہ کے نئے منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیل حمایتی لابی کے زبردست دباؤ کے باوجود اوبامہ انتظامیہ نے اقوام متحدہ سلامتی کونسل کے اس ریزولوشن کو منظور ہونے دیا جس میں اسرائیل کے ذریعے متنازعہ علاقے میں بستیوں کی تعمیر کرنے کی مذمت کی گئی تھی۔ امریکہ پر اس مذمتی ریزولوشن کو ویٹو کے ذریعے روکنے کا دباؤ تھا۔ اقوام متحدہ نے اسرائیل سے مانگ کی ہے کہ وہ فلسطینی علاقے سے ناجائز طور پر بنی یہودی بستیوں کو ہٹائے۔بھاری دباؤ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے امریکہ نے اسرائیل سے فلسطینی علاقے سے ناجائز بستیاں تعمیرکرنے سے روکنے کی مانگ کرنے والے ریزولوشن پر اقوام متحدہ سکیورٹی کونسل میں اپنے ویٹو پاور کا استعمال کرنے سے بچتے ہوئے اسے پاس کرنے کی کونسل کو منظوری دے دی۔یہ اہم ترین لمحہ ہے جب امریکہ نے اپنے ویٹو پاور کا استعمال نہیں کیا اور نہ ہی ووٹنگ میں حصہ لیا۔ سکیورٹی کونسل کے اس ریزولوشن کی مخالفت اسرائیل کے علاوہ امریکہ کے نئے منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کررہے تھے۔ ٹرمپ نے اس ریزولوشن پر رد عمل ظاہرکرتے ہوئے ٹوئٹر پر لکھا : اقوام متحدہ کے لئے 20 جنوری کے بعد حالات بدل جائیں گے۔ اقوام متحدہ میں امریکی سفیر سامنتھا پارکر کا کہنا ہے کہ ناجائز یہودی بستیاں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دو ملکوں میں مسئلے کے حل میں روڑا بنی ہوئی ہیں۔ اقوام متحدہ نے ان ناجائز یہودی بستیوں کو ناجائز قرار دیا ہے اور یہاں ناجائز یہودی بستیوں کی تعمیر بڑھی ہے۔مغربی کنارے کی ناجائز یہودی بستیوں میں ابھی 430000 سابقہ یروشلم میں 2 لاکھ یہودی رہ رہے ہیں اور فلسطین مشرقی یروشلم کو مستقبل کی راجدھانی کی شکل میں دیکھتے ہیں۔ اس درمیان اسرائیل کے وزیر اعظم بنجامن نتن یاہو کے دفتر نے کہا کہ اسرائیل اقوام متحدہ میں اسرائیل مخالف اس شرمناک ریزولوشن کو مسترد کرتا ہے اور اس پر تعمیل نہیں کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ اوبامہ انتظامیہ اقوا م متحدہ میں اس جماوڑے سے اسرائیل کی حفاظت کرنے میں نہ صرف ناکام رہا بلکہ اس نے پردے کے پیچھے سانٹھ گانٹھ کی ہے۔ دفتر نے کہا کہ اسرائیل (امریکہ) کے نئے منتخب ڈونلڈ ٹرمپ اور کانگریس ریپبلکن پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی میں ہمارے سبھی دوستوں کے ساتھ کام کرکے اس بے تکے ریزولوشن کے نقصاندہ اثرات کو ختم کرنا چاہے گا۔ ووٹنگ سے دو دن پہلے ہی ایک اسرائیل افسر نے امریکہ پر اسرائیل کو منجھدار میں چھوڑنے کا الزام لگایا تھا۔ دراصل امریکہ اگر ویٹو اختیار کا استعمال کرتا تو ریزولوشن مسترد ہوجاتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ امریکہ کا یہ قدم اس کے قریب ترین ساتھی اسرائیل کو ڈپلومیٹک پھٹکار والا قدم مانا جارہا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟