کیا ہم تیسری جنگ عظیم کی طرف بڑھ رہے ہیں

شام بحران پر روس اور امریکہ کے درمیان کشیدگی بڑھتی جارہی ہے اور اگر اس پر لگام نہیں لگتی تو کچھ بھی ہوسکتا ہے، یہاں تک کہ تیسری جنگ عظیم بھی چھڑ سکتی ہے۔ روس کی فوج کی طرف سے جاری تیاری کچھ خاص اشارہ بھی دے رہی ہے۔ روس کے صدر ولادیمیر پوتن کافی جارحانہ فیصلے لیتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ذرائع کے حوالے سے خبر آئی ہے کہ پوتن نے روس کے اعلی حکام، سیاستدانوں اور ان کے خاندان کو اپنے وطن لوٹنے کوکہا ہے۔ اسی سلسلے میں روس نے حال میں برصغیر میں بیلسٹک میزائلوں کا بھی تجربہ کیا ہے۔ پوتن نے روسی ایڈمنسٹریٹو اسٹاف، ریجنل ایڈمنسٹریشن ، لا میکرس اور پبلک کارپوریشن کے ملازمین کو یہ حکم جاری کیا ہے کہ وہ اپنے غیرممالک میں پڑھ رہے بچوں اور وہاں رہ رہے اپنے قریبی لوگوں کو فوراً وطن واپس بلا لیں۔ اگر کچھ میڈیا رپورٹ کی مانیں تو روس کی فوج نے جاپان کے نارتھ میں تعینات اپنی سب مرین سے نیوکلیئر جنگی سامان ڈھونے کی صلاحیت والے راکٹ کا بھی تجربہ کیا ہے۔ روس کی میڈیا ایجنسیوں کے مطابق روس کے نارتھ ویسٹ میں واقع گھریلو سائٹ سے بھی میزائل چھوڑی گئی ہے۔ روس کا جارحانہ قدم یہیں نہیں رکا ہے۔ سی این این کی رپورٹ کے مطابق روس نے پولینڈ اور لیتھوینیا کے ساتھ لگی سرحد پر بھی نیوکلیئر صلاحیت والی میزائلیں تعینات کردی ہیں۔ 2011ء سے شام میں خانہ جنگی کے حالات ہیں اور دنیا کی دو بڑی طاقتوں امریکہ اور روس میں اسی کو لیکر کشیدگی ہے۔ شام کی بشر الاسد حکومت اور باغیوں کے درمیان لڑائی چل رہی ہے۔ امریکہ جہاں اسد مخالفین کے ساتھ ہے اور اسد کو ہٹانے پر اڑا ہوا ہے وہیں روس اسد سرکار کی نہ صرف کھل کر مدد کررہا ہے ساتھ ساتھ اسد کو اقتدار میں برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ روس ایلوندو شہر میں اسد سرکار کی مدد کیلئے بمباری کررہا ہے۔ حالانکہ پچھلے مہینے یہاں جنگ بندی تو ہوئی لیکن بمباری لگاتار جاری ہے۔روسی صدر کو لگ رہا ہے کہ دنیا تیسری جنگ عظیم کی طرف بڑھ رہی ہے۔ روس نے جتنے بھی فیصلے لئے ہیں ان کا سیدھا پیغام ہے کہ وہ شام کو لیکر کسی سمجھوتے کو تیار نہیں ہیں۔ امریکہ کا ساتھ دینے والے دیش روس کی شام میں کردار کی تنقید کررہے ہیں۔ فرانس نے حال ہی میں روس پر شام میں جنگی جرائم میں شامل ہونے کا الزام لگایا تھا۔ یہی وجہ رہی کہ روس کے صدر پوتن نے اپنا فرانس کا دورہ منسوخ کیا۔ امریکہ میں صدرارتی چناؤ کمپین اپنے شباب پر ہے۔ پتن ڈونالڈ ٹرمپ کی کھلی حمایت کررہے ہیں۔ انہوں نے یہاں تک کہا ہے کہ اگر ہلیری کلنٹن امریکہ کی اگلی صدر بنتی ہیں تو تیسری جنگ عظیم چھڑ سکتی ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ روس اور امریکہ میں کشیدگی کم ہوتی ہے اور جنگ عظیم کی نوبت نہیں آتی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟