تین طلاق، حلالہ اور کثیر شادیوں پر بحث

مسلم فرقوں سے وابستہ تین حساس ترین اشو تین طلاق، حلالہ اور کثیر شادی پر سپریم کورٹ نے مرکزی سرکار کے پیش کردہ حلف نامے اور آئینی لاء کمیشن سے مانگی گئی تجاویز کو لے کر مسلم پرسنل لاء بورڈ و دیگر مسلم انجمنوں نے جیسا تلخ احتجاج کا مظاہرہ کیا ہے اس میں آنے والے وقت کی کچھ تصویروں کی بحال ضرور جھلک مل رہی ہیں۔ بحث کو سیاسی چشمے کی بنیاد پر دیکھنے کے بجائے فرقے میں مسلم خواتین کے حق اور عزت سے جوڑ کر دیکھا جائے تو سبھی کی بھلائی ہے یہ تینوں اشو نہ تو نئے ہیں اور نہ ہی پہلی بار بحث ہورہی ہیں۔تازہ معاملے میں طلاق اشو مسلم خواتین سائرہ بانو کی سپریم کورٹ میں دی گئی عرضی سے وابستہ ہے اب اسے لے کر مرکزی سرکار اور مسلم تنظیمیں آمنے سامنے ہیں۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ و دیگر تنظیموں جیسی سخت احتجاج کیاہے اس سے صاف ہے یہ تنظیمیں تین طلاق کو غیرقانونی ماننے اور نکاح وغیرہ معاملوں پر ایک قانون بنائے جانے کی کوشش کو آسانی سے قبول کرنے والی نہیں ہے۔ حالانکہ مرکزی حکومت ابھی سول کوڈ قانون بنانے کی کوئی بات نہیں کی ہے۔ لاء کمیشن نے صرف کچھ سوال جاری کرکے ان کاجواب مانگا ہے وہ سوال صرف مسلمانوں سے متعلق نہیں ہے مرکزی وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے صاف کہا ہے کہ یونیفارم سول کوڈ سرکاری فیصلہ نہیں ہے عدالت کے حکم پر سرکار آگے بڑھ رہی ہیں انہو ں نے آئین ہر شخص کو یکساں حق اور عزت کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق دیتا ہے جہاں تک پرسنل لاء کا تعلق ہے میرا ماننا ہے کہ پرسنل لاء کے تحت ملے حقوق پر آئینی کنٹرول ہوناچاہئے۔ پرسنل لاء امتیاز کو بڑھاوا نہیں دے سکتا ہے اور نہ ہی انسانی وقار کو ایک ساتھ سمجھوتہ کرسکتا ہے پھر ہمیں یہ نہیں بھولناچاہئے کہ پہل مرکزی سرکار کی طرف سے نہیں ہوئی ہیں۔ بلکہ سپریم کورٹ کی طرف سے ہوئی ہیں۔ اس کے سامنے مسلمانوں کو تین طلاق اور عیسائیوں کے طلاق سے متعلق معاملے کی سماعت کے لئے آئے ہوئے ہیں حقیقت میں تین طلاق، حلالہ اور کثیر شادیاں یہ تینوں رواج ہے جن کا نقصان فرقے کی خواتین کو اٹھانا پڑسکتا ہے اور مسلم فرقے کے اندر اس میں ایک رائے نہیں ہیں ایک تشریح یہ ہے کہ تین طلاق کے لئے مہینے کا فرق ہو اور صلح کے راستے کھلے ہوئے ہوں اور بہت سے معاملوں میں مسلم اداروں میں اور نشے میں اور فون پر دی گئی طلاق کو جائز مانا ہے بحث تو اسی پر ہے کہ آخر مرد کو ایک طرفہ طلاق دینے کا حق کیوں ہو؟ دلیل یہ بھی دی جاتی ہیں مرد میں صحیح فیصلہ لینے کی صلاحیت ہوتی ہیں یہ ٹھیک ہے کہ مذہبی جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچانی چاہئے اور عقیدت کا احترام ہوناچاہئے عورتیں ایسے وقت میں جب کسی معاملے میں مردوں سے پیچھے نہیں ہیں یہ بات گلے نہیں ا ترتی یہ فیصلہ لینے میں مرد سے کمتر ہوتی ہیں۔ شیعہ عالم نے تین طلاق کی رواج کو ختم کرنے اور اس سے متعلق قانون بنائے جانے کی حمایت کی ہے۔ مسلم سماج اس معاملے میں دو حصوں میں بٹ گیا ہے۔ اور ثابت کرتا ہے کہ کوئی قرآن و حدیث کا معاملہ نہیں ہے اگر ایساہوتا تو خود اسلام کو ماننے والے دنیا 22ملکوں نے اس غیرانصانی رواج کو خاتمہ نہ کیا ہوتا۔ ویسے بھارت بھی ایک سیکولر ہونے کی وجہ سے آئین کے تحت چلتا ہے اور یہاں کسی کو مذہب رسم ورواج یا عبادت میں سرکاریں مداخلت نہیں کرسکتی۔لیکن جب آئین میں جنسی برابری اور انسانی وقار کا حق دیا ہے تو اس کی تعمیل کرنا بھی سرکاروں کی ذمہ داری ہیں۔ امید کی جاتی ہیں کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ اوردیگر مسلم انجمنیں جو احتجاج کررہی ہیں وہ اصلیت کو سمجھیں گی اسے مذہبی مداخلت کا معاملہ نہ مانتے تو انسانی ضرورت سمجھیں گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!