چینی سامان کی فروخت روک میں 60% کی گراوٹ

چین کے بنے سامان کی مخالفت میں سوشل میڈیا کی مہم رنگ لانے لگی ہیں حالت یہ ہے کہ مارکیٹ میں چینی سامان کی فروخت میں 50سے 60 فیصد تک کی گراوٹ آچکی ہے اس حالت کو دیکھتے ہوئے تھوک دکانداروں کے پاس کروڑوں روپے کا سامان پھنس گیا ہے ایسے میں چین میں دئے گئے پرانے آرڈروں کو بھی منسوخ کرنے کے ساتھ ہی نئے آڈر بھی بند کئے جارہے ہیں اس بارے میں بھاگیرت پلیس( دہلی کے) ایک تھوک تاجر کے مطابق اس نے دیوالی کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس سیزن پر چین سے خرید 5کروڑ روپئے کا مال منگایا تھا جس میں بجلی کی لڑیوں کے ساتھ ہی دیگر الیکٹرانک آئٹم تھے کاروباری کے مطابق پیچھے برس بھی پہلی کھیپ میں اتنے ہی رقم کا مال منگایا گیا تھا جو دیوالی کے پہلے بک گیا تھا لیکن اس برس قریبا 60 فیصد مال اٹکا پڑا ہے۔ بھاگیرت پلیس کو الیکٹرانک سامان کے معاملے ا یشیا کے بڑے بازاروں میں شمار کیاجاتا ہے۔ دیوالی پر اس بازار 8سے 10کروڑ روپے کی بجلی کی لڑیوں کے ساتھ دیگر سجاوٹی سامان چین سے آیا ہوا ہے لیکن چین کے سامان کی مخالفت مہم نے یہاں کے دکانداروں کی ہوا نکال دی ہیں ایک دکاندارکے مطابق لوگ یہ جان سامان نہیں لے رہے ہیں کیونکہ چین کا بنا ہوا ہے دیسی پروڈکٹس کو زیادہ ترجیح دے رہے ہیں الیکٹرانک ٹریڈرس ایسوسی ایشن کے چیئرمین کے مطابق بازار کے حالات کافی خراب ہے لوگوں کا کافی پیسہ چین کے پروڈکٹس میں لگا ہوا ہے لیکن بازار میں چین مخالف ماحول ہے ویسے بھی یہ کہناپڑتا ہے کہ احتجاج کے باوجود دہلی کے بازاروں میں ابھی بھی چینی سامان چھایا ہوا ہے لڑیاں چینی بلب، سجاوٹی سامان چاندنی چوک، بھاگیرت پلیس اور دیگر بازاروں میں بک رہا ہے حالانکہ دکانداروں نے مانا ہے کہ چائنا کے پروڈکٹس کو پابندی کی مانگ کے بعد بازار میں بھی اثر پڑرہا ہے۔ دکانداروں کو روز 20 سے 25 ہزار روپے کا نقصان ہورہا ہے۔ لیکن وہی دکانداروں کا یہ بھی کہنا ہے پہلے حکومت کو ایسے ٹھوس انتظام کرنے چاہئے تھے کہ چائنا کے مال کی جگہ ہندوستانی پروڈکس خریدے جائے۔ تھوک تاجروں نے مہینوں پہلے اپنے آرڈر دے دیئے تھے پابندی تو اس وقت لگنی چاہئے تھی اثر مسئلے کا حل تو یہ ہے کہ ہم چین کی بنی لڑیوں و دیگر سامان کی قیمت پر ملک کی مال کو بیچیں۔ ہندوستانی سامان کے مقابلے میں چائنا کے ڈیزائنر لائٹیں، لڑیاں، اور کئی چیزیں 40سے 50 فیصدی سستی ملتی ہیں ایک تاجر کاکہنا تھا کہ چینی سامان پر پابندی لگانی تھی تو لوگوں کو خریدنے سے پہلے ہی روکنا چاہئے تھا۔ دہلی نہیں پورے دیش میں چین سے کئی کچے میٹریل اور پروڈکٹس بھارت میں لائے جاتے ہیں اور انہیں بھارت میں تیار کیاجاتا ہے۔ پین ہو یا ایل ای ڈی لائٹیں یا ڈیزائنر آئٹم ، الیکٹریکل سامان ہر چیز کی سپلائی چین سے ہوتی ہیں چاہے براہ راست یا غیربراہ راست طریقے سے کئی سامان کے لئے ہم چین پر منحصر کرتے ہیں۔ دہلی کی شاپنگ کے لئے 2سے ڈھائی مہینے پہلے ہی چینی سامان دہلی میں آجاتا ہے اگر اب انہیں دکاندار نہیں فروخت نہیں کریں گے پورے بازار کا ہر روز 10کروڑ روپے سے زیادہ نقصان ہوسکتا ہے بھارت کا چینی سامان کے خلاف سوشل میڈیا پر چل رہی کمپین سے چین ناراض ہوگیا ہے اور اس نے احتجاج میں چینی میڈیا اخبار گلوبل ٹائمس نے لکھا ہے بھارت صرف بھونک سکتا ہے چینی سامان کو لے کر چل رہی باتیں بھڑکاؤ ہے ہندوستانی سامان چائنز پروڈکٹس کے مقابلے ٹک نہیں سکتا ہے۔ دیش کے بڑھتے کاروباری خسارے پر بھارت کچھ بھی نہیں کرسکتا ہے۔ اخبار نے لکھا ہے کہ پاکستانی دہشت گردوں کو بین الاقوامی آتنکی اعلان کرانے کی بھارت کی کوششوں کے چین کی مسلسل مخالفت سے زیادہ تر ہندوستانی ناراض ہے اس کے چلتے وہاں سوشل میڈیا سمیت کئی پلیٹ فارم چینی سامان کے بائیکاٹ کی مہم چلا رکھی ہے۔ ا خبار نے ہندوستانی وزیراعظم کے میک ان انڈیا پروجیکٹ کو بھی غیر موزوں قرار دیا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟