غیرمعمولی! جسٹس کاٹجو حاضر ہوں

اپنے بڑ بولے پن کے لئے مشہور مارکنڈے کاٹجو آخر کار اب پھنس گئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے پیر کو ایک متوقع قدم اٹھاتے ہوئے اپنے ہی ریٹائرڈ جج( جسٹس کاٹجو ) کو نوٹس جاری کرکے پوچھا ہے کہ سومیا بدفعلی اور قتل معاملے میں عدالت کے فیصلے میں کیا خامی ہیں؟ سپریم کورٹ نے پہلی بار اپنے کسی سابق جج کو بات رکھنے کے لئے بلایا ہے سپریم کورٹ نے جسٹس کاٹجو کو اس بلاک کا نوٹس لیا ہے جس میں انہوں نے اس کیس کے فیصلے کی نکتہ چینی کی ہے۔عدالت نے ان سے کہا ہے کہ وہ شخصی طور سے کورٹ میں پیش ہوں اور بحث کریں کہ قانون میں یہ وہ صحیح ہے یا عدالت؟ یہ پہلا معاملہ ہے جب سپریم کورٹ نے اپنے ہی کسی سابق جج کو فیصلے کی تنقید کے لئے عدالت میں طلب کیا ہے۔ قابل غور ہے کہ سومیا کوچی کے ایک شاپنگ مال میں کام کیا کرتی تھیں۔1 فروری 2011کو ٹرین میں سفر کررہی تھیں اس دوران ملزم گوبند یامی نے اس پر حملہ کیا۔ اور اسے پلہ توڑ نظر کے پاس اسے ٹرین سے باہر پھینک دیا اور خود بھی چلتی ٹرین سے گود گیا بعد میں سومیا کو پاس کے جنگل میں لے جا کر اس کے ساتھ بدفعلی کی۔ چوٹوں کی وجہ سے 6 فروری ہو سومیاکی ایک اسپتال میں موت ہوگئی۔ جسٹس کاٹجو نے اپنے بلاک میں لکھاتھا کہ سپریم کورٹ نے گوبند یامی کو قتل کا ملزم نہ ٹھہرا کر بھول کی ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلہ میں کہا ہے کہ یہ ثابت نہیں ہوا کہ ملزم کا ارادہ قتل کرنے کا تھا اس لئے اسے قتل کا قصور وار نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ لیکن عدالت نے آئی پی سی کی دفعہ 300 پر توجہ نہیں دی۔ جس میں قتل کو لے کر 4مرحلوں میں تشریح کی گئی۔ صرف پہلے حصے میں قتل کی مانگ کو کیس میں ثابت کردیاجائے تو اسے قتل مانا جائے گا۔ چاہے اس میں قتل کی منشا نہیں رہی ہو۔ افسوس ہے کہ عدالت نے دفعہ 302کے بارے میں اسٹڈی نہیں کی۔ اس فیصلہ کی کھلی عدالت میں پھر سے غور ہوناچاہئے۔ عدالت نے جسٹس کاٹجو کے پوسٹ پر نوٹس لیتے ہوئے ان سے 11نومبر کو سماعت میں حصہ لینے کی اپیل کے ساتھ کہا ہے کہ وہ خود آکر بتائے کہ فیصلے میں ایسی کیا خامی ہے کہ عدالت اس پر نظر ثانی کریں؟ جسٹس راجن گوگئی پی سی پنت اور یو یو للت کی بنچ نے پوسٹ کے اس حصے کی تشریح بیان کرتے ہوئے نظر ثانی عرضی میں بدل دیا۔ عدالت نے کہا ہے کہ وہ اس کورٹ کے ریٹائرڈ جج کا نظریہ ہے اس پر پورے سمان اور سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ جسٹس راجن گوگئی سربراہی والی بنچ نے 15دسمبر کو سومیا قتل معاملے میں گوبند یامی کو ثبوتوں کمی میں قتل کا قصور نہیں ماناتھا۔ بنچ نے نچلی عدالت اور اس کے بعد ہائی کورٹ سے اس کی موت کی سزا کو منسوخ کردیا تھا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!