نوجوت سنگھ سدھو کا بھاجپا کو زبردست جھٹکا

اپنی بے رخی اور منمانی سے بھاجپاکو وقتاً فوقتاً پریشان کرتے رہے سابق کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو نے اس بار بڑا جھٹکا دیا ہے۔ محض تین مہینے پہلے نامزد ہوکر راجیہ سبھا پہنچے سدھو نے پنجاب چناؤ سے عین پہلے لیڈرشپ کو اندھیرے میں رکھتے ہوئے راجیہ سبھا سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ پیر کو وہ صبح 10.20 پر ہی راجیہ سبھا چیئرمین کے کمرے میں گئے تھے۔ ساڑھے دس بجے سیاسی پارٹیوں کی میٹنگ سے پہلے ہی انہوں نے چیئرمین اور نائب صدر حامد انصاری کو اپنا استعفیٰ دے دیا ، جو منظور بھی ہوگیا۔ اس سے پہلے سدھو کی بیوی پنجاب میں پارلیمانی سکریٹری کا ذمہ سنبھال رہی ڈاکٹر نوجوت کور نے یکم اپریل کو فیس بک پر بھاجپا چھوڑنے کے بارے میں تبصرے سے ماحول کو گرمادیاتھا حالانکہ تب وہ محض اپریل فول ثابت ہوا۔ بحث گرم ہے کہ دونوں میاں بیوی عام آدمی پارٹی میں شامل ہونے جارہے ہیں۔ امرتسر سے لوک سبھا کا ٹکٹ کاٹے جانے اور پنجاب میں اکالی دل سے اتحاد جاری رکھنے کے سبب عرصے سے ناراض چل رہے سدھوجوڑے نے یہ تسلیم کیا ہے کہ ان کی عاپ میں شامل ہونے کے بارے میں بات چیت چل رہی ہے۔ عاپ نے بھی استعفے کو ہمت افزاء قدم بتاتے ہوئے سدھو کو پارٹی میں شامل ہونے کے بارے میں انکار نہیں کیا۔ گزشتہ چار پانچ مہینے سے سدھو میاں بیوی اروند کیجریوال سے کئی دور کی بات چیت کرچکے ہیں۔ اسی سلسلے میں نوجوت کور شروع سے ہی عاپ میں شامل ہونے کی خواہشمند تھیں مگر اس درمیان بھاجپا لیڈرشپ نے سدھو کو منا لیا۔ خود پی ایم مودی نے سدھوسے بات کی اور انہیں راجیہ سبھا کے لئے راضی کرلیا۔ ابھی یہ صاف نہیں ہوا کہ سدھو پنجاب میں عاپ کی طرف سے وزیر اعلی کا چہرہ ہوں گے یا نہیں؟ عاپ کے آئین کے مطابق خاندان کا کوئی ایک ممبر کسی عہدے پر رہ سکتا ہے۔ چناؤ بھی سدھو اور ان کی بیوی فی الحال عاپ سے نہیں لڑ سکتے۔ حالانکہ ذرائع کا کہنا ہے سدھو اور نوجوت کور کو منانے کے لئے پارٹی کے آئین میں تبدیلی کر سکتے ہیں ۔ ایسا ہوا تو اروند کیجریوال کی بیوی کے لئے بھی عاپ میں کسی رول کا راستہ کھل سکتا ہے۔ نوجوت کی بیوی پیشے سے ڈاکٹر ہیں۔ نوجوت کور سدھو پنجاب میں ایم ایل اے ہیں اور چیف پارلیمنٹری سکریٹری ہیں۔ ڈاکٹر کور نے ڈرگس کے خلاف بیان دے کر پہلے ہی عام آدمی پارٹی میں جانے کا اشارہ دے دیا تھا۔ نوجوت سنگھ سدھو نے اپنے استعفے کے بعد کہا کہ پنجاب کی بھلائی کے لئے وزیر اعظم کی درخواست پر میں نے راجیہ سبھا کی ممبرشپ قبول کی تھی۔ پنجاب کی بھلائی کا ہر دروازہ بند ہونے کے چلتے اس کا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا۔ اب یہ محض بوجھ ہے میں اسے اور زیادہ نہیں ڈھونا چاہتا۔ صحیح اور غلط کی لڑائی میںآپ مطلبی بن کر غیر جانبدار نہیں رہ سکتے۔ پنجاب کا مفاد سب سے اوپر ہے۔ نوجوت سنگھ سدھو کا پنجاب چناؤ سے عین پہلے بھاجپا چھوڑنا پارٹی کے لئے اچھا اشارہ نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو چناؤ نتائج کو ماثر کرسکتا ہے۔ ویسے بھی اس واقعہ سے پنجاب کی ہوا کا پتہ چلتا ہے۔ کہتے ہیں کہ سدھو کو ہوا سونگھنے کی عادت ہے اور آنے والے وقت اور ماحول کو بھانپ لیتے ہیں۔ جب وہ کرکٹر تھے تو اگر میچ میں بارش ہوتی تھی تو کپتان ان کے پاس آکر پوچھتے تھے کہ بارش کب رکے گی ، میچ ہوگا یا نہیں؟ بھاجپا بھلے ہی پبلک طور پر اسے قبول کرے یا نہ کرے لیکن اس کے لئے ایک ایسا جھٹکا ہے جس کا نقصان اسے چناؤ میں اٹھانا پڑسکتا ہے پنجاب میں اکالی دل کی بڑھتی غیر مقبولیت اور عاپ پارٹی کی بڑھتی مقبولیت کوئی پوشیدہ پہلو نہیں ہے۔ کیجریوال کئی بار سوال کر چکے ہیں عاپ پارٹی کو 100 سے زیادہ سیٹیں آئیں گی۔ اگر پارٹی کو کیش دھاری سدھو جیسا ایک چہرہ مل جاتا ہے تو عاپ پارٹی کے لئے اس وقت منہ مانگا وردان ہوگا۔ جیسا دکھائی دے رہا ہے۔ ویسے دیکھا جائے تو سدھو پنجاب میں بھاجپا کو مضبوط کرنے اور اپنے دم خم پر کھڑا کرنے کے حمایتی تھے لیکن بھاجپا ہائی کمان کو اکالیوں کی بیساکھی زیادہ پسند تھی۔ بھاجپا نے ایک سنہرہ موقعہ گنوا دیا ہے۔ پرکاش سنگھ بادل اور کیپٹن امریندر سنگھ کے درمیان عاپ کے پاس بھی ایک بھروسے مند سکھ چہرہ آگیا ہے۔ لوگوں کے پاس ایک تیسرا متبادل بھی ہوگا۔ یہ تو ماننا ہی پڑے گا کہ سدھو کی فنکاری میں ایک جادو ہے جو لوگوں کو راغب کرتا ہے۔ دیکھیں بھاجپا اس جھٹکے سے کیسے نمٹتی ہے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟