راہل گاندھی معافی مانگیں یا مقدمے کا سامنا کریں

چناوی ماحول میں اکثر دیکھا ہے کہ لیڈرصاحبان کبھی کبھی ایسے بیان دے دیتے ہیں جن سے بچنا چاہئے۔ مثال کے طور پر مہاتما گاندھی کے قتل کیلئے راہل گاندھی کی جانب سے دیا گیا بیان ہے۔ کانگریس نائب صدر نے گزشتہ برس 6 مارچ کو مہاراشٹر کے شہر ٹھانے میں ایک چناوی ریلی میں کہہ دیا تھا کہ آر ایس ایس کے لوگوں نے گاندھی جی کا قتل کرایا تھا۔اس بیان پر مہاراشٹر کے بھونڈی کی مجسٹریٹ عدالت میں آر ایس ایس کے لیڈر راجیش کمٹے نے مقدمہ درج کرایا تھا۔ مجرمانہ ہتک عزت کیس کے خارج کرنے کی مانگ کو لیکر راہل گاندھی گزشتہ سال مئی میں سپریم کورٹ پہنچے تھے۔ عدالت نے اس سے پہلے بھی راہل گاندھی کو یہ معاملہ بند کرنے کیلئے معزرت کرنے کی صلاح دی تھی، لیکن انہوں نے یہ صلاح ماننے سے انکارکرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ مقدمہ لڑیں گے۔ اس متنازعہ بیان پر سپریم کورٹ نے منگل کے روز راہل گاندھی سے کہا کہ وہ اپنے بیان کے لئے معافی مانگیں یا مقدمہ جاری رکھنے کے لئے تیار رہیں۔ عدالت عظمیٰ نے راہل گاندھی پر مجموعی طور پر الزام لگانے کیلئے کھنچائی کرتے ہوئے کہا کہ انہیں مقدمے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جسٹس دیپک مشرا کی سربراہی والی بنچ نے راہل سے کہا کہ آپ سنگھ کے خلاف وسیع طور پر ایسا بیان کیسے دے سکتے ہیں؟ کیسے سنگھ سے جڑے لوگوں کو ایک ہی ترازو پر تول کر دکھا سکتے ہیں۔ بنچ نے پوچھا کہ راہل نے غلط تاریخی ثبوت کو اپنے بیان کا حصہ کیوں بنایا؟ عدالت ہذا نے اجتماعی ہتک عزت کے آئینی جواز کو برقرار رکھا۔ یعنی اگر جو بھڑکیلے یا قابل اعتراض بیان دے گا اسے مقدمہ کا سامنا ہی کرنا پڑے گا۔ کانگریس کے ترجمان رندیپ سرجے والا نے فیصلے پر رائے زنی کرتے ہوئے کہا ہے کہ راہل گاندھی کے معافی مانگنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ وہ ایک سنجیدہ لیڈر ہیں اور ان کو تاریخی حقائق کی پوری جانکاری ہے۔ راہل اور کانگریس پارٹی مناسب اسٹیج پر ان سبھی رائے زنیوں کو بچاؤ کرے گی۔ سنگھ کے پرچارک موہن وید کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے حکم سے کانگریس کی پول کھل گئی ہے۔ راہل گاندھی سماج سے بچ رہے ہیں اور بار بار وہی جھوٹا الزام سنگھ پر لگا رہے ہیں۔ اس سے لگتا ہے کہ ان کا دیش کی عدلیہ نظام میں کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ راہل گاندھی کے وکیل کے مطابق راہل کی تقریر میں جو بھی کہا گیا ہے وہ سرکاری ریکارڈ اور پنجاب ۔ہریانہ ہائی کورٹ کے فیصلے کی بنیاد پر کہا گیا ہے۔ راہل سیدھے طور پر آر ایس ایس کا ذکر نہیں کررہے تھے۔ اس پر بنچ نے ہائی کورٹ کا فیصلہ پڑھنے کے بعد کہا کہ اس میں صرف اتنا کہا گیا ہے کہ ناتھو رام گوڈ سے آر ایس ایس کا ورکر تھا۔ بنچ نے کہا گوڈسے نے گاندھی کو مارا اور آر ایس ایس نے گاندھی کو مارا دونوں الگ الگ بات ہیں۔ کئی برس سے کوشش ہورہی ہے کہ تاریخی ہستیوں کی زندگی میں دخل اندازی کا نیا باب شروع کردیا جائے۔ سپریم کورٹ کی ہدایت کے باوجود راہل گاندھی کا اپنے رخ پر قائم رہنا شاید انہیں لگتا ہے اس سے ان کی ایک بہادر لیڈر کے طور پر ساکھ بنے گی اور کانگریس پارٹی کا اقلیتی ووٹ بینک ان کی طرف لوٹے گا۔ شاید انہیں ایسی صلاح اس مقصد سے دی گئی ہے کہ وہ سنگھ کی سیاسی شکل سے سامنا کرتے ہوئے دکھیں گے لیکن ہمارا خیال ہے کہ سستی سیاست کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔ عام طور پر اس طرح کی سیاست سیاسی پارٹیوں کی لیڈر شپ کرنے والے نیتا نہیں کرتے۔ آدھے ادھورے حقائق کے ساتھ اکسانے والے بیان دینے والے لیڈر ویسے ہر پارٹی میں ہیں۔ اس نقطہ نظر سے کورٹ کا یہ صا ف صاف الفاظ میں کہنا ہے کہ آپ کسی کی شارے عام طور پر نکتہ چینی نہیں کرسکتے۔ قابل ستائش یہ ہے کہ اس فیصلے پر اگر صحیح ڈھنگ سے غور کیا جائے تو موجودہ سیاست کے معیارمیں جو گراوٹ آئی ہے اس میں کافی حد تک بہتری ہوسکتی ہے مگر نیتا اس فیصلے کو سنجیدگی سے لیں ۔ عام طور پر ہم نے دیکھا ہے کہ بے بنیادی الزام لگانے سے پہلے بھی سیاسی پارٹی کے نیتاپرہیز نہیں کرتے۔ راہل گاندھی کا آر ایس ایس سے نظریاتی اختلاف ہوسکتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اسے بدنام کریں۔ راہل گاندھی کا جو رخ اور رویہ ہے اس سے کانگریس کو کچھ سیاسی فائدہ مل سکتا ہے لیکن اس سے کل ملاکر راہل گاندھی کی اپنی ساکھ پر برا اثر پڑے گا۔ ہمیں تو لگتا ہے آخر کار انہیں سنگھ سے معافی ہی مانگنی پڑے گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!