برطانیہ کی دوسری خاتون وزیراعظم ٹیریسا

ایسا اتفاق ہی ہوتا ہے کہ جب میعاد کے درمیان میں ایک وزیر اعظم اپنی کرسی چھوڑ دے اور دوسرے کو سونپ دے۔ اس طرح غیر معمولی حالات میں ٹیریسا نے برطانوی وزیر اعظم کی حیثیت سے ذمہ داری سنبھال لی۔ بھکنگم پیلس کے انت پر میں ڈیوڈکیمرون جب وزیر اعظم کی حیثیت سے آئے اس کے ایک گھنٹے کے اندر ہی ٹیریسا ان کی جانشین بن کر وہاں سے باہر نکلیں۔ بیشک چہرہ اور نام نیا ہے مگر جن مسائل سے ڈیوڈ کیمرون پچھلے 6 سال سے دوچار رہے ان سے نئے وزیراعظم ٹیریسا کو بھی محاذ آرا ہونا پڑے گا۔ خاص طور پر مالی تنگی، کمزور اکثریت اور سب سے بڑا درد سر برگزیٹ۔ ٹیریسا اس عہدے پر آنے والی دوسری خاتون ہیں۔ ان سے پہلے مردِ آہن خاتون کی شکل میں مارگریٹ تھریچر دیش کی نمائندگی کر چکی ہیں لیکن جن حالات میں ٹیریسا کو دیش کی کمان ملی ہے وہ ایک کانٹوں کا تاج ہے۔ دلچسپ یہ ہے کہ کیبنٹ کی تشکیل کے ساتھ ہی ان کی تنقید بھی شروع ہوگئی ہے۔ سب سے زیادہ سوال بورس جانسن کو وزیر خارجہ بنانے کولیکر اٹھ رہے ہیں۔ جانسن برگزیٹ کے حق میں کمپین چلانے والے لیڈر رہے ہیں اور امریکی صدر براک اوبامہ سمیت کئی دیگر سربراہ مملکت کے خلاف دئے گئے ان کے بیان خاصے سرخیوں میں رہے ہیں۔ ایسے شخص کو خارجہ پالیسی کا ذمہ سونپنے پر سوال اٹھنے فطری ہی ہیں۔ 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ میں پچھلی رات50 سالہ ٹیریسا کو شاید نیندنہیں آئی ہو۔ ترجمان نے کہا سبھی مبارکباد کے فون بات چیت میں وزیر اعظم نے یوروپی یونین سے باہرجانے سے متعلق برطانوی عوام کی خواہش کو پورا کرنے کا عزم جتایا۔ ٹیریسا کے سامنے ایک چیلنج دیش کے عام ووٹروں کا اعتماد جیتنا ہوگا۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ پچھلے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی طرح خود ٹیریسا بھی برگزیٹ کے خلاف تھیں۔ ایسے میں اگر وہ برگزیٹ حمایتی خیمے کے بڑے نیتاؤں کو اپنی حکومت میں اہم کردار نہیں دیتیں تو اسے مینڈیٹ کی خلاف ورزی سمجھا جاتا۔وزیراعظم بننے کے بعد دئے گئے ان کے بیانوں میں بھی یہ کوشش صاف جھلکتی ہے کہ انہوں نے لوگوں کو صاف صاف کہا ہے کہ وہ بڑے فیصلے لیتے وقت طاقتور لوگوں کے بارے میں نہیں آپ کے بارے میں سوچیں گے۔ نئے قانون بھی ان کا نہیں آپ کا دھیان رکھتے ہوئے بنائے جائیں گے۔ ٹیکس کی بات ہوگی تو ہماری ترجیح آپ ہوں گے، وہ نہیں۔ ٹیریساکی برطانیہ میں کامیابی پر نہ صرف یوروپی ممالک بلکہ بھارت سمیت پوری دنیا کی نظریں لگی ہوئیں تھیں۔ ایسے چیلنج بھرے حالات میں یہ اطلاع بھی تسلی دینے والی ہے کہ ٹیریسا میں شروعاتی قدموں میں کوئی جلد بازی نہیں دکھائی دیتی اور ان کی سمت بھی صحیح ہے۔ ہم ٹیریسا کو ان کے وزیر اعظم بننے پر مبارکباد دیتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ برطانیہ کے اس چیلنج بھرے وقت سے دیش کو باہرنکالنے میں کامیاب ہوں گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟