ترکی میں تختہ پلٹ کی ناکام کوشش

یوروپ سے ایشیا تک پھیلے دیش ترکی کی راجدھانی انقرہ کی سڑکوں پر جمعہ کی شام اچانک فوج کے جوانوں کی بڑھتی موجودگی دیکھ لوگ حیران رہ گئے۔ لوگوں کو اس وقت تو سمجھ میں نہیں آیا کہ بھاری ٹینکوں کے ساتھ سڑکوں پر اترے یہ فوجی دیش کی موجودہ حکومت کا تختہ پلٹنے جارہے ہیں۔ فوج کے ایک گروپ نے تختہ پلٹ کی سازش رچی تھی۔ ٹینکوں، بکتربند گاڑیوں ،جنگی جہازوں کے سہارے راجدھانی انقرہ اور سب سے بڑے شہر استنبول میں جم کر حملہ کیا۔ پارلیمنٹ پر بھی بم برسائے گئے، ایئرپورٹ بند ہوگیا اور ساری بین الاقوامی پروازیں منسوخ کردی گئیں۔ پورے دیش میں کھلبلی مچ گئی۔ صدر ایردواں اس وقت دیش سے باہر تھے، جیسے ہی انہیں تختہ پلٹنے کی اطلاع ملی انہوں نے ٹی وی، ٹوئٹر ، ایس ایم ایس کے ذریعے لوگوں سے اپیل کی کے جمہوریت اور امن کے لئے اٹھو اور سڑکوں پر اترو۔ ہزاروں لوگ گھروں سے نکل پڑے۔ ٹینکوں و بکتربند گاڑیوں کے آگے لیٹ گئے اور کھڑے ہوگئے۔ بغیر بندوقوں کے فوج سے ٹکرا گئے۔ عوام کا غصے بھرا رویہ دیکھ قریب پانچ گھنٹے بعد خونی جنگ رک گئی۔ باغیوں نے ہاتھ کھڑے کردئے۔ اس دوران کچھ ہی گھنٹوں میں 256 لوگوں کی موت ہوگئی۔ 1500 سے زیادہ باغیوں کو عوام نے مار مار کر سرنڈر کرایا۔ حکومت نے90 فیصد حالات قابو میں کر لئے ہیں۔ شام کو حکومت نے باغیوں کے خیمے پر سخت کارروائی شروع کردی۔ قریب 3 ہزار باغیوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ 25 کرنل ،5 جنرلوں کو بھی ہٹا دیا گیا۔ باغیوں سے رابطہ کے چلتے2800 ججوں کی بھی چھٹی کردی گئی۔8 باغی ہیلی کاپٹر سے یونان بھاگ گئے۔ صدر نے جس ٹوئٹ سے تختہ پلٹ کی سازش ناکام کردی وہ کچھ ایسا تھا۔ ’’ترکی کے پیارے لوگوںیہ حرکت دیش کے خلاف ہے۔ ایک چھٹی سی فوجی ٹکڑی نے استنبول اور انقرہ میں فوج کی ہتھیاربند گاڑیاں اور ہتھیار حاصل کر لئے ہیں۔1970 ء کی تاریخ دوہرانے کی تیاری ہے۔ تختہ پلٹ کی کوشش کو مناسب جواب دینا ضروری ہے۔ اپنے دیش اور جمہوریت کو بچالو۔ سڑکوں پر اتریں اور اپنا دیش واپس چھین لیں۔ تختہ پلٹ کے پیچھے امریکہ میں رہ رہے جلا وطن مسلم پیشوا فتح اللہ گولین کا نام بھی لیا جارہا ہے۔ حکومت کے وکیل رابرٹ ایمس ٹریڈم نے کہا کہ اس کے پیچھے فتح اللہ کا سیدھا ہاتھ ہے۔ انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق اس کے صاف اشارے ہیں کہ فتح اللہ کچھ خاص ملٹری لیڈر شپ کے ساتھ چنی ہوئی سرکار کو معذول کرنے کے لئے کام کررہے تھے۔ حالانکہ فتح اللہ نے اپنے اوپر لگے الزاموں کو مسترد کردیا ہے۔ ویسے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ترکی کی فوج کو جدید ترکی کے معمار کمال اتاترک کے بنائے سیکولر آئین کا تحفظ مانا جاتا ہے۔ 14 سال پہلے جب صدر کیسپ تمید ایردواں اقتدار میں آئے تھے تبھی سے ان کی کٹرپسندوں کے آگے جھکنے کی پالیسی کو فوج نے ناپسند کردیا تھا۔ 2002ء میں اقتدار میں آنے کے بعدایردواں نے فوج پر اپنا کنٹرول قائم کرنے کے لئے اعلی سطح پر ردوبدل شروع کردی تھی۔ پھوٹ ڈال کراپنے پسند کے جنرلوں کو بڑے عہدوں پربٹھانے کی ایردواں کی پالیسیوں سے فوج کے اعلی افسر ناراض چل رہے تھے۔ باغی گروپ کا کہنا ہے کہ وہ صرف صدر کو ہٹانا چاہتا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ وہ تاناشاہی چلاتے ہیں۔ باغیوں کو جیل بھیجتے ہیں، کئی تنزیہ نگار صحافیوں پر مقدمہ کرنے اور غیر ملکی صحافیوں کو دیش سے نکالنے کا بھی الزام ہے۔ پچھلے مہینے ترکی کے سب سے بڑے اخبار ’جمان‘ پر پولیس نے چھاپہ مارا تھا، جس کے بعد اخبار کو جھکنا پڑا تھا۔ 61 سال کے ایردواں 2002ء میں اقتدار میں آئے تھے جبکہ2001ء میں انہوں نے ایک پارٹی بنائی تھی۔ 2014ء میں صدر بننے سے پہلے وہ 11 سال تک ترکی کے وزیر اعظم رہے۔ 2013ء میں انہوں نے فوج کے سینئر جنرلوں پر کارروائی کی تھی۔ ان میں سے17 کو جیل بھیج دیا تھا۔ فوج اس وجہ سے بھی ان سے ناراض ہے۔ بچپن میں ایردواں نے پیسہ کمانے کے لئے اسنبول کی سڑکوں پر لیمو پانی بیچا تھا۔ 1999ء میں اسلامی جذبات بھڑکانے کے الزام میں انہیں چار مہینے تک جیل میں رہنا پڑا تھا۔ ترکی کی عوام جمہوریت حامی رہی ہے اس لئے جب صدر کا ایس ایم ایس آیا تو تمام عوام سڑکوں پراتری اور جمہوریت کو بچالیا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟