کیا شیلا یوپی میں کانگریس کی نیا پار لگا پائیں گی

تقریباً تین مہینے پہلے کانگریس کے نئے چناوی حکمت عملی ساز پرشانت کشور نے تجویز رکھی تھی کہ اترپردیش میں اگر کانگریس کو دوبارہ نئی زندگی دینی ہے تو اسمبلی چناؤ میں پارٹی کو کسی برہمن لیڈرکو اپنا چہرہ بنانا ہوگا۔ ان کی تجویز کے بعد غلام نبی آزاد کی سفارش پر عمل کرتے ہوئے سونیا گاندھی ، پرینکا اور راہل گاندھی نے شیلا دیکشت کو یوپی کا وزیراعلی کا چہرہ بنانے کی منظوری دے دی۔ آنے والے اسمبلی چناؤ کے لئے شیلا جی اب کانگریس کا چہرہ ہوں گی۔ یوپی کے اقتدار سے27 سال دور رہنے کے بعد کانگریس وہاں گدی پانے کو بیتاب ہے۔ یوپی کانگریس کے انچارج غلام نبی آزاد نے شیلا دیکشت کے نام کا اعلان کرتے ہوئے بتایاکہ وہ تجربہ کار اور محنتی خاتون ہیں۔ سی ایم کے طور پر شیلا دیکشت جی نے 15 سال دہلی میں ترقیاتی کام کئے جن سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ پھر شیلادیکشت کا یوپی سے بھی قریبی رشتہ ہے ، وہ کانگریس کے سینئر لیڈر اور وزیر رہے اوما شنکر دیکشت کے بیٹے کی اہلیہ ہیں۔ کانگریس نے ایک طرح سے شیلا دیکشت کو یوپی میں سی ایم ان ویٹنگ فیس پیش کردیا ہے اور اپنی پوری طاقت جھونک دی ہے۔ نہرو۔ گاندھی خاندان کو چھوڑدیں تو یقینی طور سے اس وقت شیلا جی سے بہتر کانگریسی چہرہ یوپی کے لئے کھرا نہیں اترتا لیکن صرف اس برہمن کارڈ کے سہارے یوپی میں تقریباً27 برسوں سے اقتدار سے دور رہی کانگریس کی ڈگر بہت آسان ہونے کی امید نہیں دکھائی پڑتی۔ کانگریس کا ورکر اداس اور مایوس ہوکر بیٹھ گیا تھا۔ اسے پھرسے سرگرم کرنا آسان نہیں ہوگا۔ ہاں اتنا ضرور ہے ہوسکتا ہے شیلا دیکشت کی سسرال کی وراثت کے سہارے کانگریس یوپی کی تقریباً14 فیصد برہمن آبادی کے کچھ ووٹ حاصل کرلیں لیکن یوپی کی سیاست میں فرش پرکھڑی کانگریس کو سیدھاعرش پر پہنچا دے گا یہ فی الحال آسان نہیں نظر آرہا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا تو کہنا ہے کہ شیلا دیکشت کے سہارے یوپی کی ذات پات کی جگل بندی والی سیاست میں چناؤ کے دوران دوسروں کی پریشانیاں ضرور بڑھادیں لیکن سپا،بھاجپا یا بسپا جیسی پارٹیوں کے سامنے بہتر متبادل بن کر چنوتی کھڑی کر پائیں گی یہ کہنا مشکل ہے۔ دہلی میں پچھلے اسمبلی چناؤ میں بھلے ہی اروند کیجریوال نے کانگریس کا پتا صاف کردیا ہو لیکن وزیر اعلی کے طور پر شیلا دیکشت کے لگاتار 15 سال کے عہد میں دہلی نے ناقابل توقع ترقی کو کوئی بھی جھٹلا نہیں سکتا۔ شیلا دیکشت اترپردیش میں کانگریس کو اکثریت بیشک نہ دلا پائیں لیکن ان کا قد، سیاسی تجربہ اور تجزیہ فٹ کرنے میں ماہر کانگریس یوپی میں کافی کچھ اچھا مظاہرہ کرسکتی ہے۔ بتادیں کہ دہلی اسمبلی کی تاریخ میں سب سے زیادہ وقت تک یعنی 5504 دن شیلا دیکشت جی نے عہدہ پر قائم رہ کر ریکارڈ بنایا ہے۔ یوپی کانگریس کا ڈھانچہ بیحد کمزور ہے۔ گاؤں تک کوئی آرگنائزیشن نہیں ہے۔ ورکر کم تو ہوہی گئے ہیں مگر وہ مایوس ہوکر یا تو دوسری پارٹیوں میں چلے گئے ہیں یا پھر گھر بیٹھ گئے ہیں۔ صرف چند نیتا وہ بھی ضلع سطح پر رہ گئے ہیں۔ کئی جگہ تو بلاک سطح پر کمیٹی پوری نہیں ہے۔ ضلع ۔ بلاک وغیرہ کی میٹنگوں میں گنتی کے لوگ شامل ہوتے ہیں اور گروپ بندی بھی حاوی ہے ایسے میں نئے سرے سے پارٹی کو کھڑا کرنے کے لئے غلام نبی آزاد، راج ببر اور شیلا دیکشت کی اس تکڑی کو سخت محنت و مشقت کرنی ہوگی۔ یہ کام آسان نہیں ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے پارٹی اگر راہل یا پرینکا کو سامنے رکھ کر چناؤ لڑتی تو شاید اس سے کچھ فرق پڑتا۔ پرینکا کی سرگرمی سے لگ رہا تھا کہ وہ بڑا رول نبھانے والی ہیں۔ شاید اب بھی نبھائیں لیکن اترپردیش کی چناوی سیاست میں کانگریس کی بنیاد کے بارے میں بلاشبہ بہت کچھ بتا دیتا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!