اسلامی دہشت گردی کے مقابلہ کیلئے دنیا کو متحد ہونا پڑے گا

فرانس ایک بار پھر دہشت گردانہ حملہ کا شکار ہوا ہے۔ 8 مہینے کے اندر (14 نومبر 2015 ) پیرس میں ہوئے خوفناک حملہ کے بعد پھر ایسے حملوں کا شکار ہونا محض فرانس ہی نہیں پوری دنیا کے لئے تشویش کا باعث ہونا چاہئے۔ فرانس کیلئے 14 جولائی بیستیل پتن دوس یا قومی دوس ہے۔نیس شہرمیں بیستیل ڈے کے جشن کو نشانہ بنائے جانے سے پتہ چلتا ہے کہ آئی ایس کی آئیڈیالوجی سے رغبت اسلامی دہشت گرد حملے دنیا کے تمام ملکوں میں بڑھ رہے ہیں۔اندیشہ تھا کہ جیسے جیسے آئی ایس شام اور عراق میں کمزور ہوگا وہ اپنا اثر جتانے کے لئے دنیا بھر میں دہشت گردانہ حملوں کا سہارا لے گا۔ پچھلے ڈیڑھ برس میں فرانس میں جتنے حملے ہوئے اس کے بعد اسے زیادہ چوکس اور ہوشیار ہوناچاہئے تھا۔ پیرس حملے کے دوران بھی اس کی سکیورٹی میں چوک سامنے آئی تھی جو وہاں کی جانچ رپورٹ میں بھی قلمبند ہے۔ نیس حملہمیں بھی جس طرح دہشت گرد 100 کلو میٹر کی رفتار سے ٹرک چلاتا ہوا شہرمیں گھسا اسے روک کر چیک کرنے کی ضرورت تھی لیکن لگتا ہے ایسا نہیں ہوا۔ اپنی گرل فرینڈ کے پاس بیستیل ڈے کی آتشبازی کا لطف اٹھا رہے مارکو برسوتی کے مطابق رات11 بجے اچانک سفید رنگ کے ایک ٹرک نے اس شہر کی سب سے خوبصورت سڑک پرویونادے وس اجلیس میں بھاری بھیڑ میں داخل ہوا ۔ لوگ ادھر ادھر بھاگنے لگے، جان بچانے کے لئے ہم کنارے کی طرف بھاگے۔ بہت سے لوگ ایک دوسرے پر گر پڑے۔ ٹرک دو کلو میٹر تک لوگوں کو روندھتا چلا گیا۔ چاروں طرف خون بہنے لگا۔ اس معاملے میں اب تک 84 لوگوں کی موت بتائی گئی ہے اور 120 لوگوں کے زخمی ہونے کی خبر ہے۔ان میں کئی خواتین و بچے بھی شامل ہیں۔ درجنوں کی زخمیوں کی حالت نازک بنی ہوئی ہے۔ موقعہ پر موجودہ پولیس نے دہشت گرد ڈرائیور کو مار گرایا ہے۔ڈرائیور 31 سالہ فرانسیسی تیونس شہری محمد لاہوجی کہیل کو ایک بائیک سوار نے روکنے کی کوشش بھی کی لیکن وہ کامیاب نہیں ہو پایا۔حملہ آور 25 منٹ تک سڑک پر موت کا خوف مچاتا رہا۔ وہ گولیاں بھی چلا رہا تھا۔ بعد میں پولیس نے ٹرک کو گھیر کر آتنکی کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔ آئی ایس نے اس حملہ کی ذمہ داری لیتے ہوئے جشن مناتے تصویروں کو سوشل میڈیا میں پوسٹ کیا ہے۔ بروسیلس آئررے لاڈو، ڈھاکہ سے لیکر استنبول حملوں کے جشن کی تصویریں ہم نے دیکھی ہیں۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ جب دنیا دہشت گردی کے خلاف ایمانداری سے متحد ہو؟ برے اور اچھے دہشت گرد میں فرق کو دور کریں۔ آئی ایس کے کمزور ہونے کا لگاتاردعوی ہورہا ہے باوجود اس کے اس کی آئیڈیالوجی سے متاثر کچھ مسلم نوجوان دنیا بھر میں خودکش حملے کررہے ہیں۔ نیس کا آتنکی بھی ایسا ہی تھا ۔ جس ڈھنگ سے لوگوں کو کچلنے کے بعد وہ ٹرک سے اترکر گولیاں چلا رہا تھا اس سے ظاہر ہے کہ وہ مرنے کو تیار تھا۔ ایسے نا جانے کتنے سر پھر جنونی کہاں کہاں کس دیش میں بیٹھے ہیں۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ عراق ۔ شام میں کمزور پڑنے کے بعد آئی ایس نے اپنی حکمت عملی بدلی ہے۔ اب وہ جگہ جگہ دہشت گردانہ واردات کرنے پر زور دے رہا ہے۔ عراق اور شام میں سکیورٹی فورسز کو یہ فائدہ ہے کہ وہ دشمن کو سامنے دیکھ سکتے ہیں اور ہوا و زمین پر سیدھا حملہ کر سکتے ہیں لیکن بروسیلز آر لیڈو ، ڈھاکہ، نیس و استنبول میں آتنکی حملوں کو روکنا اس لئے مشکل ہے کیونکہ وہ عام شہریوں کے درمیان بھی رہتے ہیں۔ انہی کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔ برسوں تک سلیپر سیل چپ چاپ رہتے ہیں اور وقت آنے پر اپنا کام کرجاتے ہیں۔ تکلیف کا موضوع یہ ہے کہ دنیا اس اسلامی دہشت گردی کے خلاف متحد بھی نہیں ہے۔ یوروپ کی اصلاحاتی پالیسیوں کا یہ آتنکی پورا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ تشفی کی بات یہ ہے کہ جب سے مودی سرکار اقتدار میں آئی ہے ایک بھی بڑا آتنکی حملہ بھارت میں نہیں ہوا۔ جموں و کشمیر کو چھوڑدیں جہاں دوسرا کھیل ہے ، باقی بھارت اب بھی محفوظ ہے۔ انٹر نیٹ آج آتنکی تنظیموں کا بڑا ذریعہ بن گیا ہے۔ کئی دیشوں میں نوجوان طبقہ آتنکی پرچارسے متاثر ہوکر آئی ایس میں شامل ہورہا ہے۔ اکیلا آتنکی بھی کیسا قہر ڈھا سکتا ہے، یہ نیس شہر کے حملہ سے پتہ چلتا ہے۔ یہ نئی طرح کی چنوتی ہے جس کا مقابلہ کرنے کے لئے ساری دنیا کو اس بڑھتی اسلامی دہشت گردی کے خلاف متحد ہونا پڑے گا۔ نہیں تو نیس شہر جیسے حملے ہوتے رہیں گے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟