شہید پیداہوں، لیکن میرے گھر میں نہیں پڑوسی کے گھر میں
شہید پیدا ہوں لیکن میرے گھر میں نہیں پڑوسی کے گھر میں۔ یہ کہاوت کشمیری علیحدگی پسندوں پر بالکل کھری اترتی ہے۔ کشمیر نوجوانوں کے من میں علیحدگی پسندوں کے گورے چہرے و رویئے کو لیکر سوال اٹھنے لگے ہیں۔ ان کی حقیقت سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے۔ عام کشمیری نوجوانوں کو جہاد کے راستے پر چلنے کے لئے اکسانے اور اسلام کے نام پر انہیں موت کے منہ میں دھکیلنے ،یہ حریت لیڈروں کے خود کے بچے کشمیر کی مار کاٹ سے دور ملک و بیرون ملک میں تعلیم یا پیسہ کما کر عیش و آرام کی زندگی گزار رہے ہیں۔ کشمیرمیں علیحدگی پسندی کا سب سے بڑا چہرہ سید علی شاہ گیلانی کو مانا جاتا ہے۔ گیلانی نے اپنے کیریئر کا آغاز جماعت اسلامی کشمیر سے کیا تھا۔ بعد میں خود کی پارٹی تحریک حریت بنا لی۔ گیلانی کا بڑا بیٹا نعیم اور بڑی بیٹی پاکستان کے راولپنڈی شہر میں رہتے ہیں۔ دونوں ہی پیشے سے ڈاکٹرہیں جبکہ چھوٹا بیٹا دہلی کے مالویہ نگر میں رہتا ہے جہاں پر گیلانی سردیوں میں تقریباً تین ماہ تک قیام فرماتے ہیں۔ گیلانی کا پوتا ایک ہندوستانی پرائیویٹ ایئر لائنس میں عملے کا ممبر ہے۔ چھوٹی بیٹی فرحت جدہ میں رہتی ہے۔ علیحدگی پسند نیتا دختران ملت کی چیف آسیہ اندرابی جمعیت المجاہدین کے سابق کمانڈر عاشق حسین عرف محمد قاسم کی اہلیہ ہیں۔چھکتو کو انسانی حقوق رضاکار ایم این وایو کے قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا ملی ہے اور وہ 22 سال سے سری نگر جیل میں بند ہے۔ اندرابی اور اس کے شوہر کو گیلانی گروپ کا حمایتی مانا جاتا ہے لیکن دختران ملت حریت کا حصہ نہیں ہے۔ آسیہ کے دو بیٹے ہیں بڑا بیٹا محمد بن قاسم ملیشیامیں آسیہ کی بڑی بہن کے ساتھ رہ کر بیچلر آف انفارمیشن ٹیکنالوجی کا کورس کررہا ہے۔ چھوٹا بیٹا سری نگر کے ایک نامور اسکول میں زیرتعلیم ہے۔ آسیہ کے زیادہ تر رشتے دار سعودی عرب ، ملیشیا اور انگلینڈ میں رہتے ہیں۔ عوامی ایکشن کمیٹی کے لیڈر میر واعظ عمر فاروق کو حریت کانفرنس کے نرم گروپ کا لیڈر مانا جاتا ہے۔ میر واعظ کی ساکھ ایک کشمیری مذہبی مسلم پیشوا کی ہے۔ میرواعظ کی بہن روبیہ فاروق امریکہ میں ڈاکٹر ہے۔ میرواعظ نے امریکی نژاد مسلم خاتون شیبہ مسعودی سے شادی کی ہے۔جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیف یاسین ملک کی وفاداری پاکستان سے شروع سے ہی جڑی ہوئی ہے۔یاسین کے والد سرکاری بس کے ڈرائیور ہوا کرتے تھے۔ یاسین نے پاکستانی لڑکی مشہیلا حسین سے نکاح کیا ہے وہ ایک جانی مانی آرٹسٹ ہیں۔مشہیلا لندن اسکول آف اکنامکس سے گریجویٹ ہیں۔ان کے والد ایم ۔ اے حسین پاکستان کے نامور اکنامسٹ ہیں۔ ماں ریحانہ پاکستان مسلم لیگ کی وومن وونگ کی پریسیڈنٹ ہیں۔ ان علیحدگی پسند لیڈروں کے اپنے برتاؤ پر جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے باغیوں میں سے ایک حاشم قریشی کے بیٹے جنیدقریشی نے سوال کھڑے کئے ہیں ، انہوں نے پوچھا ہے کہ علیحدگی پسند دوسروں کے بچوں کو بندوق تھما کر مرنے کے لئے کیوں اکساتے ہیں؟ جنید ہاشم قریشی کا بیٹا ہے جو30 جنوری 1971ء کو انڈین ایئر لائنس کے طیارہ اغوا کر لاہور لے گیا تھا۔ وہاں مسافروں کو چھوڑدیا گیا تھا لیکن جہاز کو بموں سے اڑادیاتھا حالانکہ بعد میں ہاشم قریشی نے دہشت گردی کا راستہ ترک کردیا۔ جنید نے کہا کہ کشمیری نوجوان ان علیحدگی پسندوں سے یہ سوال پوچھیں کہ اگر بندوق اٹھانی ضروری ہے تو پھر وہ کیوں اپنے بچوں کو بندوق نہیں تھماتے؟ دراصل جیسے ہی علیحدگی پسند لیڈروں کے بچے بڑے ہوجاتے ہیں تو انہیں کشمیر سے باہر بھیج دیا جاتا ہے۔ ایسا کشمیر کے تقریباً ہرعلیحدگی پسند لیڈر نے کیا ہوا ہے۔ ان کے بچے نہ تو کبھی کسی مظاہرے میں شامل ہوئے نہ ہی انہوں نے کبھی سکیورٹی فورس پر پتھر برسائے۔ کئی بار تو ایسا دیکھنے میں آیاہے کہ ان لیڈروں کے بچے اس دوران کشمیر میں آئے اورانہیں فوراً واپس بھیج دیاگیا۔ کبھی کسی لیڈر نے کشمیر کے خراب حالات کے دوران اپنے بچوں کو نہیں بلایا۔ ہر بار دنگوں میں ان لیڈروں کے بچے باہر ہی رہتے ہیں۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں