ایک بار پھر دہلی لشکر طیبہ کے نشانے پر

دہلی ایک بار پھر دہشت گرد تنظیم لشکر طیبہ کے نشانے پر ہے۔ وہ پھر کسی بڑے حملے کی فراق میں ہے۔ دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے راجدھانی سمیت دیش کے دیگر شہروں میں فدائین اور گرینیڈ حملے کی سازش کا انکشاف کرتے ہوئے لشکر انتہائی اہم شخصیتوں و بھیڑ بھاڑ والے علاقوں میں بازاروں میں ایسا حملہ کرسکتا ہیں۔ اس سازش کا اس وقت پتہ لگا جب اسپیشل سیل کو لشکر طیبہ کے دو دہشت گردوں دورجانا اور اوکاشا کے بارے میں خفیہ جانکاری ملی تھی۔ دونوں نے پاکستان مقبوضہ کشمیر سے دیش کی سرحد میں گھس پیٹھ کی ہے۔ یہ دونوں کافی وقت سے جموں و کشمیر میں رہ رہے تھے۔ بتایا جارہا ہے کہ پہچان چھپانے کے لئے لوگوں میں نعمان، زید اور خورشید جیسے ناموں کا استعمال کررہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق دہشت گردوں کے پاس دو پلان ہیں۔ پہلا پلان وزیراعظم نریندر مودی کی موجودگی کے دوران ان کی کسی ریلی پر پیرس یا 26/11 جیسا حملہ کرنا۔ دوسرا پلان یہ ہے کہ اگر وہ پی ایم کی سکیورٹی میں سیند لگانے میں ناکام رہتے ہیں تو خود کو دھماکے سے اڑا لیں گے یا پھر بھیڑ پر گرینیڈ سے حملہ کریں گے۔ پہلا پلان فیل ہوجانے پر لشکر کے پاس ایک پلان ’بی‘ بھی تھا۔ ذرائع نے بتایا کہ دہشت گردوں کو دہلی میں کسی بڑے نیتا یا کسی بڑی شخصیت کا قتل کرنا تاکہ سیاسی اور فرقہ وارانہ کشیدگی پھیل جائے۔ فون ٹیپنگ کے دوران مشتبہ دہشت گردوں نے کئی بار وی آئی پی لفظ استعمال کیا۔ اگر ہم جموں و کشمیر سرحد پر دہشت گردوں سے جاری جھڑپوں کو چھوڑ دیں تو عام طور پر پچھلے کچھ عرصے سے دیش کے دیگر حصوں میں دہشت گرد اپنے منصوبوں میں کامیاب نہیں ہوپائے۔ ہم سمجھتے ہیں بہتر خفیہ جانکاری اور مختلف خفیہ اور سکیورٹی ایجنسیوں میں بہتر تال میل و سرکار کی واضح پالیسی کا ہی یہ نتیجہ ہے۔ وزیر اعظم مودی نے دہشت گردی کے خلاف زیرو ٹالورینس پالیسی کا اعلان کررکھا ہے لیکن سمجھنا یااطمینان رکھنا کہ اب لشکر جیسی جہادی تنظیم حملہ نہیں کرسکتی، یہ بھول ہوگی۔ دیش کے اندر بھی ایسے عناصر کی کمی نہیں جو ان جہادیوں کی مدد کرسکتے ہیں۔ ایک بدقسمتی یہ بھی ہے کہ ان جہادی خطرناک تنظیموں پر کسی کا کنٹرول نہیں ہے۔ یہاں تک کہ پاکستان سرکار بھی بے بس ہے۔ یہ اگر کسی کے اشارے پر چلتے ہیں تو وہ ہے پاکستانی فوج اور خاص کر اس کا خفیہ محکمہ آئی ایس آئی۔ بہرحال ویسے بھی 26 جنوری قریب آرہی ہے اور یہ آتنکی ایسے خاص موقعوں کی تلاش میں ہمیشہ رہتے ہیں اس لئے ہماری سکیورٹی ایجنسیوں کو مزید چوکسی برتنی چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟