سزا میں نرمی اور دیری سے پھیلتی ہے اراجکتا

عزت مآب سپریم کورٹ نے بھی مانا ہے کہ سنگین جرائم کے ملزمین کو سزا دینے میں کسی قسم کی نرمی نہیں برتنی چاہئے کیونکہ اس سے بے ترتیبی اور نفسا نفسی پھیلتی ہے۔ چیف جسٹس ایچ ایل دتو کی صدارت والی پانچ ممبری آئین بنیچ نے بدھوار کو کہا ہے کہ یہ ایک سخت حقیقت ہے کہ راجیہ کی مشینری عام آدمی کی زندگی اور آزادی کی گارنٹی دینے میں فعال نہیں ہے۔ ایسے حالات میں کم سے کم پھانسی کی سزا یا عمر قید کے معاملے میں نرمی برتی جاتی ہے تو صرف یہی کہاجاسکتا ہے کہ اس سے اور نفسا نفسی پھیلے گی اور قانون کی حکومت نہیں رہے گی اور دیش میں نفسا نفسی کاراج ہوگا جس میں مجرم اور ان کے گروہ حکومت کریں گے۔ سپریم کورٹ نے اس کے ساتھ ہی کہا ہے کہ معاملوں کو نپٹانے میں بہت زیادہ دیری سے اندر ڈرائل مجرموں کو اور سنگین جرموں میں شامل ہونے کا موقع مل جاتا ہے۔سپریم کورٹ نے یہ رائے راجیو گاندھی قتل میں مجرموں کے ا مید کی کرن کی سوچ کو بھی نامنظور کردیا ہے۔ عدالت نے کہا ہے کہ ایسے کٹر اپرادھیوں کے لئے امید کی کرن کے تصور کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ ان کے ساتھ کسی بھی قسم کارحم برتنا غلط ہوگا۔بہت افسوس سے کہناپڑتا ہے کہ راجیو گاندھی کے قاتل آج بھی ہماری لچر انصاف کے طریقے کی وجہ سے پھانسی نہیں پاسکیں۔میں یہاں اپنے پڑوسی ملک پاکستان کی ایک مثال پیش کرنا چاہتا ہوں۔ پاکستان میں ابھی ایک سال پورا نہیں ہواجب خوفناک آتنکیوں نے پشاور میں بچوں کے اسکول پر آتنکی قہربرپا کیا۔ اس آتنکی حملے میں ملوث 4 طالبانی آتنکیوں کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا ہے۔ان آتنکوادیوں کو حملے کی برسی سے پہلے پھانسی دے دی گئی جس میں قریب 150 معصوم بچوں کو مار دیا گیا تھا۔ اس قتل عام کے واقعہ نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ وزیراعظم نواز شریف نے ان کی اپیلوں کو خارج کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان پر رحم نہیں کیاجاسکتا۔ پشاور کے پاس کوہٹ میں ایک غیر فوجی جیل میں 4آتنکیوں مولوی عبدالسلام، حضرت علی، مجیب الرحمن اور سبھی عرف یحییٰ کو پھانسی دی گئی۔ سپریم کورٹ نے اگست مہینے میں ایک حکم میں فوجی عدالتوں کے قیام کو قانونی اختیار دیا تھا جس کے بعد آرمی چیف نے پہلی بار اس طرح کی سزا پر مہر لگائی۔ساتوں مجرمین میں سے چھ توحید جہاد گروپ کے ہے وہی ایک تحریک طالبان پاکستان کاسرگرم رکن ہے۔ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ اس واقعہ کو 16 دسمبر کو ایک سال پورا ہونے سے پہلے ہی انہیں پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ کیا بھارت اس سے کوئی سبق لے گا؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!