پہلے بیوی کا علاج کراؤ پھر بات کرنا طلاق کی

سپریم کورٹ نے ایک اہم فیصلے میں کہا ہے کہ آپسی رضامندی سے طلاق لینے کے معاملے میں اگر بیوی بیمار ہے تو اس کی رضامندی جائز نہیں مانی جائے گی۔ دراصل سپریم کورٹ کے سامنے ایک ایسا معاملہ آیا ہے جس میں سنگین طور سے بیمار بیوی نے 12.50 لاکھ روپے لینے کے بعدطلاق کے لئے رضامندی دے دی تھی۔ جدید ہندوستانی قانون کے مطابق میاں بیوی کی آپسی رضامندی طلاق کی جائز بنیاد ہے لیکن اس جوڑے کے مخصوص حالات کو دیکھتے ہوئے عدالت نے طلاق کی عرضی نامنظور کردی۔ اس معاملے میں بریسٹ کینسر کے مرض میں مبتلا بیوی نے ساڑھے بارہ لاکھ روپے کی شکل میں تاحیات گزارا بھتے کی شکل میں طلاق لینے کی اجازت دے دی تھی۔ بیوی کا کہنا تھا کہ اسے علاج کے لئے پیسوں کی ضرورت ہے۔ اس پر جسٹس این۔ وائی ۔اقبال کی سربراہی والی بنچ نے کہا کہ یہ شوہر کا پہلا فرض ہے کہ وہ بیوی کا علاج صحت اور سلامتی کا خیال رکھے۔ اس کے علاج کے لئے سہولیات مہیا کرائے۔ عدالت نے ہندو روایت کے مطابق میاں بیوی کے رشتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک ہندو بیوی کے لئے شوہر بھگوان ہوتا ہے، اس کی پوری زندگی بلا مفاد شوہر کے لئے وقف ہوتی ہے۔ وہ شوہر کے ساتھ زندگی اور پیار ہی شیئر نہیں کرتی بلکہ سکھ دکھ میں بھی ساتھ دیتی ہے۔ وہ شوہر کی زندگی کا ایک جز ہے اور اس کے اچھے برے دنوں میں سب سے اہم ساتھی بھی ہوتی ہے۔ ایسے میں شوہر اسے ناگزیں حالات میں چھوڑ نہیں سکتا۔ عدالت نے کہا موجودہ معاملے میں شوہر نے بیوی کے علاج کے لئے پیسے دینے کی بات کہی ہے لیکن اتنا کافی نہیں ہے۔ عدالت نے کہا کہ طلاق کی عرضی پر بیوی کے ٹھیک ہونے کے بعد ہی غور ہوسکتا ہے۔ عدالت نے اندیشہ ظاہر کیا کہ بیوی کو علاج کے لئے پیسے کی ضرورت ہے اس لئے ممکن ہے کہ اس نے ساڑھے بارہ لاکھ روپے کی رقم پانے کیلئے شوہر سے علیحدگی پر حامی بھر دی ہو۔ اس لئے بیوی نے جس دستخط کو اس کی رضامندی بتایا جارہا ہے ، ہو سکتا ہے وہ شوہر کے ذریعے کی گئی سودے بازی کا نتیجہ ہو۔ رشتوں میں ایسا نظریہ سرے سے غیرا نسانی ہے۔ واجب ہی ہے کہ کورٹ نے اسے منظور نہیں کیا۔ بنچ نے کہا کہ جب بیوی شدید طور سے بیمار ہو تو یہ ضروری ہے کہ اس وقت شوہر اس کے ساتھ کھڑا ہو۔ صاف ہے کہ عدالت نے لکیرکے فقیر بن کر قانون کی تعمیل کرنے کی حمایت نہیں لی بلکہ اسے دھیان میں رکھا کہ آپسی رضامندی سے طلاق کی سہولت۔ میاں بیوی کے رشتوں میں دو اشخاص کی خواہش کو بالاتر ماننے کیلئے کہاگیا ہے لیکن صرف مکمل اہل اور آزاد شخص ہی حقیقت میں اپنی مرضی کے مطابق فیصلہ لے سکتے ہیں۔ انصاف کے لئے قانون کی مناسب تشریح کی اتنی اہمیت ہے جتنا اسے لاگو کرنے کی۔ اس سے انسانی جواز سسٹم قائم ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟