کیلیفورنیا میں پاک جوڑے نے 14 کوگولیوں سے بھونا

امریکہ میں ایک طرف فائرننگ کا واقعہ رونما ہوا ہے۔ ویسے تو آئے دن ہی امریکہ میں ایسے فائرننگ کے واقعات ہوتے رہتے ہیں لیکن گذشتہ بدھوار کی رات کو رونما یہ واردات ایک آتنکی واردات بھی کہی جاسکتی ہے۔ کیلیفورنیا کے شہر میں ہتھیاروں سے مسلح پاکستانی نژاد میاں بیوی نے جسمانی و ذہنی طور سے کمزور لوگوں کے لئے منعقدہ کرسمس پارٹی کے دوران اندھا دھند فائرنگ کی جس میں 14 لوگوں کی موت ہوگئی اور17 دیگر زخمی ہوگئے۔ پولیس نے فائرننگ کرنے والی عورت کو مار گرایا جبکہ دوسرے مشتبہ کو حراست میں لے لیا۔ پولیس کے مطابق مڈبھیڑ میں ماری گئی عورت کی پہچان 27 سالہ ترفین ملک اورمرد کی پہچان 28 سالہ سید رضوان فاروق کے طور پر کی ہے۔ فائرننگ کے دوران پارٹی میں500 سے زیادہ لوگ موجود تھے۔ پولیس نے اگلے ہی دن جمعہ کو بتایا کہ حملہ آور سید رضوان فاروق اور اس کی بیوی ترفین ملک کے گھر کی تلاشی میں انہیں ہتھیاروں اور دھماکو سامان کا ذخیرہ ملا ہے جن میں ایک درجن پائپ بم اور3 ہزار کارتوس بھی شامل ہیں۔ دونوں پاکستانی ہیں۔ انہوں نے انگلینڈ ریجنل سینٹر میں قریب 150 گولیاں چلائیں بعد میں پولیس کے ساتھ مڈبھیڑ میں دونوں مارے گئے۔ فاروق حملے سے ایک دن پہلے اپنے ڈاٹا ڈلیٹ کرنا شروع کردیا تھا۔ حملے کے پیچھے حالانکہ ابھی بھی مقصد صاف نہیں ہوا ہے لیکن ایف بی آئی اسے ایک دہشت گردانہ وارادات ماننے سے انکار کررہی ہے۔ یہ پتہ چلا ہے سید رضوان فاروق آتنکی تنظیم اسلامک اسٹیٹ سے متاثر تھا۔ پاکستانی نژاد سید رضوان فاروق اور اس کی بیوی پاک شہری ترفین ملک نے برین واش کیا تھا۔ کیلیفورنیا فائرنگ معاملے سے وابستہ حکام نے بتایا کہ خاتون نے فیس بک پوسٹ پر لکھا جس میں اس نے آئی ایس چیف البغدادی کے تئیں وفادار ہونے کی بات کہی تھی۔ ترفین نے دوسرے نام سے فیس بک اکاؤنٹ بنایا اور اس میں آئی ایس کے تئیں اپنے خیالات کے بارے میں لکھا۔ حکام نے یہ نہیں بتایا کہ انہیں یہ جانکاری کیسے ملی۔ انہوں نے حملے کیلئے آئی ایس کے ذریعے ہدایت کی بات کولیکر کوئی تصدیق نہیں کی۔ انہوں نے بتایا کہ ابھی ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے جس کے بغیر آئی ایس کا ہاتھ ہونے کی بات کہی جاسکے۔کیلیفورنیا کے اس واقعہ کے بعد امریکہ میں رہ رہے مسلمان سکتے میں ہیں۔ اس خوفناک فائرنگ کے بعد اسلام مذہب کے ساتھ بڑھتے امتیاز کے تئیں تشویش ظاہر کرتے ہوئے مسلمانوں کے حقوق کی وکالت کرنے والی بڑی تنظیم ایڈوکیسی گروپ کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشن کے ترجمان ابراہیم ہوپر نے اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اسے شخصی جرائم کی طرح دیکھنا چاہئے نہ کہ اس کے پیچھے مذہبی بنیادکو۔ کسی شخص کے کام کو پورے مذہب سے نہیں جوڑا جانا چاہئے۔ اس واقعہ کے بعد نیویارک پوسٹ میں اپنے صفحہ اول پر بڑے الفاظ میں چھاپا تھا۔ ’’مسلم ہتھیارے نے انجام دی شوٹنگ‘‘ ۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟