ماحولیات اور آب وہوا سے کھلواڑ کا خوفناک نتیجہ

ادھر پیرس میں دنیا کے موسم کے بدلنے اور گلوبل وارمنگ پر چرچا ابھی ختم ہی ہوئی تھی کہ بھارت کے چنئی میں بارش سے قیامت آگئی۔ غیرمعمولی بارش نے چنئی پر ناقابل یقین گہر ڈھایا ہے۔ سوموار رات سے شروع ہوئی موسلا دھار بارش نے 100 سالوں کا ریکارڈ توڑ دیا گزشتہ نومبر میں وہاں ہفتے بھر بارش نے پورے راجیہ کی روزمرہ کی زندگی کو ٹھپ کردیا تھا اور شہر نواسی بڑی مشکل سے اس آفت سے نکلے ہی تھے کہ اب دوبارہ شروع ہوئی بارش نے تروولور، چنئی اور کانچی پورم کی حالت خراب کرکے رکھ دی۔ ہزاروں لوگ گھر چھوڑ کر کیمپوں میں جانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ موتوں کااعداد وشمار 200 کے آس پاس پہنچ چکا ہے۔ یہ کتنا سنگٹ ہے، یہ اس سے بھی سمجھاجاسکتا ہے کہ چنئی ایئر پورٹ کئی دنوں سے بند پڑا ہوا ہے اور جہاز پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں 133سالوں میں پہلی بار دی ہندو اخبار سمیت کل 4 اشو نہیں چھپ سکے۔ چنئی میں لگاتار بارش کی وجہ سے جس طرح کی حالت بنی ہوئی ہے وہ یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں کہ قدرت اور ماحول کے ساتھ اپنے رشتے کو ایک ذمہ دارعمل میں شکل نہیں دیتے تو مستقبل کا خطرہ نزدیک آتاجائے گا۔ راجیہ کی جے للیتا سرکار اور ایڈمسٹریٹو آفیسر اس آفت کے پیچھے اشور کاہاتھ بتا رہے ہیں ۔ اس سے انکار نہیں کہ یہ قدرتی آفات ہے، لیکن چنئی سمیت پورے تامل ناڈو میں گزشتہ کچھ سالوں سے لوگ آسمان کو چھوتی جو ترقی ہوئی اس نے بھی اس آفت کو دعوت دی ہے ۔ قریب ایک دہے پہلے بارش نے ممبئی جیسے مہانگر کا جو حال کیا تھا قاعدے سے وہی سبنھلنے کے لئے کافی ہوناچاہئے تھا۔ لیکن ہم نے نہ تو گزشتہ سال سری نگر سمیت پورے کشمیر کی اس زبردست باڑھ سے سبق لیا جو نقص زدہ شہری کرن، ندیوں، تالابوں کے کنارے یا اس پر نرمان پانی کے نکاسی کے تئیں اداسینتا اور شہروں میں آبادی کے بڑھتے دباؤ سے سبق لیا نہ ہی بار بار گلوبل وارمنگ اور ماحولیات کی چیتاؤنیوں پر توجہ دی۔ دراصل ماحولیاتی ماہرین لگاتار چیتاؤنی دے رہے ہیں کہ آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے بارش یا باڑھ سوکھے کی غیرمعمولی حالات کا سامنا ہمیں کرنا پڑے گا۔ چنئی میں بھاری بارش سے پیدا شدہ حالات سے نپٹنے کے لئے فوج، نیوی اور این ڈی آر ایف کی ٹیمیں راحت بچاؤ کام میں جٹ گئی ہیں۔مرکزی اور ریاستی سرکار ملک کر متاثرہ لوگوں کو بچانے اور راحت پہنچانے میں جٹی ہوئی ہیں۔ صاف ہے کہ جو حالات وہاں بنے ہیں اس سے پھر سے روزمرہ کی زندگی کو بحال ہونے میں وقت لگے گا۔ معاشی طور سے جو نقصان ہوا ہے اس کا اثر تو خیرپورے دیش پر پڑے گا۔آج سارا دیش تامل ناڈو کے ساتھ ہے اور سبھی ہرممکن مدد کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟