راہل گاندھی کا نیا سیاسی روپ

اپنے نامعلوم جگہ سے واپسی کے بعد کانگریس نائب صدر راہل گاندھی کافی سرگرم دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ہم راہل کو نئے اوتار کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔ پچھلے کچھ دنوں سے راہل وزیر اعظم نریندر مودی پر سیدھے اور تلخ حملے کررہے ہیں۔ پارلیمنٹ سے لیکر سڑک تک راہل سخت محنت میں لگے ہوئے ہیں۔ ایسا انہوں نے پہلے کبھی نہیں کیا۔ کانگریس پارٹی میں دوبارہ سے روح پھونکنے کیلئے راہل دن رات مشقت میں لگے ہیں۔ تلنگانہ دورہ پر کسانوں سے ملاقات کے بعد واڈیال گاؤں میں ایک ریلی کو خطاب کرتے ہوئے راہل نے کہا کہ اچھے دن صرف وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے کچھ کاروباری دوستوں کے لئے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا مودی کے پانچ سے چھ کاروباری دوست ہیں اور پورا دیش انہیں کیلئے چلایا جارہا ہے۔ یہ چنندہ لوگوں کی سرکار ہے۔ سوٹ ، بوٹ اور چنندہ صنعتکاروں کی سرکار ہے۔ انہوں نے کہا ایک سال گزر گیا کیا آپ نے کوئی نوکری پائی جس کا وعدہ مودی نے کیا تھا؟ میں جہاں کہی بھی جاتا ہوں لوگ یہی کہتے ہیں کہ انہوں نے این ڈیاے سرکار کو ووٹ دے کر غلطی کی ہے۔ پیر کو اپنے پارلیمانی حلقے امیٹھی میں راہل نے مودی کے ایک سال کے عہد کے رپورٹ کارڈ پر کہا کہ میں مودی سرکار کو10 میں سے0 نمبر دیتا ہوں۔ مودی کے دوچار صنعتی دوست ہیں جو انہیں 10 میں سے10 نمبر دیتے ہیں۔ مودی سرکار تو سوٹ بوٹ کی سرکار ہے وہ کسانوں کا درد کیا سمجھے گی۔ کانگریس نائب صدر نے مودی سرکار کے غیر ملکی دوروں پر پھر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ وہ پوری دنیا میں گھوم رہے ہیں لیکن ان کے پاس خودکشی کرنے والے کسانوں کے گھر جانے کا وقت نہیں ہے۔’’ میگھا فوڈ پارک‘‘ اشو پر راہل گاندھی نے کہا کہ یہ منصوبہ سارے لوگوں کے لئے فائدے مند تھا لیکن مودی سرکار نے اچھے چھین لیا۔ 
مرکزی سرکار بدلے کی سیاست کررہی ہے۔ راہل نے کسانوں سے سوال کیا کہ اچھے دن کہاں ہیں؟ کیا آگئے؟ جس کا جواب نہیں ملا۔ راہل چلچلاتی دھوپ میں دھول اور گدھوں والی کچی سڑکوں پر دو کلو میٹر پیدل چلے۔ امیٹھی سے لوٹنے کے بعد راہل چھتیس گڑھ اور کیرل جانے اولے ہیں۔ ان دوروں کے پیچھے راہل کا ایجنڈہ کسان اور مزدور کے مفادات کی لڑائی لڑنے کے ساتھ پارٹی تنظیم کی مضبوطی بھی ہے۔ راہل 26-27 مئی کو کانگریس کی رہنمائی والے کیرل جانے والے ہیں۔ کیرل میں اگلے سال مئی میں اسمبلی چناؤ ہونے ہیں۔ مانا جارہا ہے کہ راہل کا مقصد وہاں تنظیم کو مضبوطی کے ساتھ گروپ بندی سے بھی نجات دلانا ہے۔ راہل کی جلد تاجپوشی کا بھی تذکرہ ہے۔ اس سے پہلے وہ اپنی سیاسی زمین تیار کرنا چاہتے ہیں۔ راہل کے اس نئے اوتار کا عام کانگریسیوں پر اچھا اثر پڑ رہا ہے۔ اب ان کے نکتہ چینی کرنے والے بھی خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ زمین پر آئی کانگریس کو راہل کتنا اٹھا سکتے ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟