کیجریوال کا سرکولر انہی کی بھدپٹوانے کا سبب بنا

سپریم کورٹ کا جمعرات کو آیا حکم دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال کے لئے جھٹکا تو ہے ہی ساتھ ساتھ سبق بھی ہے۔ عدالت نے دہلی سرکار کے متنازعہ فرمان پر پابندی لگادی ہے جس میں سرکاری افسران سے کہا گیا تھا کہ میڈیا میں جن خبروں سے سرکار کی ساکھ خراب ہوتی ہے ان کے خلاف مجرمانہ معاملہ درج کیا جائے۔ دہلی سرکار نے گزشتہ 6 مئی کو یہ سرکولر جاری کیا تھا۔ اس میں کہا گیا تھا اگر کوئی شخص دہلی کے وزیر اعلی ، وزیر یا دہلی سرکار کے افسران کی ساکھ خراب کرنے والی خبر چھاپتا ہے تو اس کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 499 اور 500 کے تحت ہتک عزت جرائم کا مقدمہ درج کیا جاسکتا ہے۔ سرکولر پر روک لگانے کے ساتھ ہی عدالت نے دہلی سرکار سے ڈیڑھ مہینے کے اندر یہ بھی بتانے کو کہا ہے کہ اس طرح کا سرکولر کیوں جاری کیا گیا۔ عدالت کا یہ حکم وکیل امت سبل کی عرضی پر آیا۔امت سبل کی جانب سے جمعرات کو پیش ہوئے وکیل ابھیشیک منو سنگھوی نے کہا کہ کیجریوال دوہرا پیمانہ اپنا رہے ہیں۔ ایک طرف تو انہوں نے ہتک عزت کے قانون آئی پی سی کی دفعہ499 اور500 کے جواز کو چنوتی دیکر بڑی عدالت سے راحت لے رکھی ہے دوسری طرف اسی قانون کے تحت میڈیا کے خلاف مقدمہ چلائے جانے کے لئے سرکولر جاری کیا ہے۔ جسٹس دیپک مشرا کی ڈویژن بنچ نے پوچھا کہ دونوں باتیں کیسے ہوسکتی ہیں؟ امت سبل نے کیجریوال کے خلاف دہلی کی نچلی عدالت میں ہتک عزت کا مقدمہ دائر کررکھا ہے۔جو سبل کے بارے میں کیجریوال کی طرف سے دئے گئے بیان پر داخل کیا گیا ہے۔ کیجریوال نے ہتک عزت قانون کی دفعہ499 اور 500 کے جواز کو سپریم کورٹ میں چنوتی دی ہے۔ عدالت نے کیجریوال کی عرضی پر نوٹس جاری کرتے ہوئے ان کے خلاف نچلی عدالت میں زیر التوا ہتک عزت کے مقدمے پر روک لگادی تھی۔ عدالت کے موقف سے صاف ہے کہ میڈیا کو نشانے پر لینے اور اسے ڈرانے کے دہلی سرکار کے رویئے کو اس نے کافی سنجیدگی سے لیا ہے۔جمہوریت میں ایسی کارروائی کیلئے کوئی گنجائش نہیں ہوسکتی۔ یہ حیرت کی بات ہے ایسا نہایت غیر جمہوری قدم اس پارٹی کی سرکار نے اٹھایا ہے جو شفافیت اور جوابدہی کا دم بھرتی ہے۔ کیا ہو اپنے اصولوں سے بھٹک گئی ہے؟ کیجریوال کچھ عرصے سے میڈیا کے خلاف زہر اگلتے رہے ہیں، حال ہی میں بغیر کوئی ٹھوس ثبوت پیش کئے انہوں نے کہا تھا کہ میڈیا نے ان کی پارٹی کو ختم کرنے کی سپاری لے رکھی ہے۔ جیسے یہ الزام کافی نہ ہو انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ میڈیا کے خلاف پبلک ٹرائل چلائیں گے یعنی اسے جنتا کے کٹہرے میں کھڑا کریں گے۔ ایک جمہوری نظام میں سرکاروں اور سیاسی پارٹیوں کی تنقید عام بات ہے۔ تنقید کا اختیار بغیر جمہوریت کے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ تنقید کے تئیں جیسی غیر حساسیت کا مظاہرہ کیجریوال نے پیش کیا ہے اسے دیکھتے ہوئے ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو یہ سوچ کر بھاری راحت محسوس کرتے ہوئے شکر ہے کہ کیجریوال کے ہاتھ میں پولیس کا کنٹرول نہیں ہے۔ کیجریوال کی یہ شکایت کچھ حد تک صحیح ہوسکتی ہے کہ میڈیا کا ایک طبقہ ان کے تئیں منفی نظریہ رکھتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ٹیکس دہندگان کی گاڑھی کمائی اس کی ساکھ بچانے پر خرچ کی جائے۔ سرکولر نکالنے سے بہتر یہ ہوتا کہ میڈیا کے جس حصے سے انہیں شکایت تھی اپنے پارٹی ورکروں ، حمایتیوں اور عام جنتا سے اس کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل جاری کرتے۔ اس کے بجائے یہ الزام لگانا کہ پورا میڈیا ہی انہیں اور ان کی پارٹی کو ختم کرنے کی سپاری لے چکا ہے، بیحد اعتراض آمیز ،بچکانا اور بیہودہ رویہ ہے۔جمہوری نظام میں اگر اطلاعات یا نظریات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کے نتیجے جمہوریت کے لئے خراب ہوتے ہیں۔ میڈیا کی لگام تو ہر منٹ جنتا کے ہاتھ میں رہتی ہے۔ یہ سیاست کی طرح اس کے سامنے مجبوری نہیں ہوتی کہ غلط چناؤ کا احساس ہونے کے باجود کسی پارٹی کی سرکار کو پانچ سال تک جھیلنا ہی پڑے۔ بہرحال جس ساکھ کوبچانے کے چکر میں کیجریوال نے یہ سرکولر نکالا وہی ان کی بھد پٹوانے کا سبب بن رہا ہے۔ کیا اب بھی وہ باآور ہوں گے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!