دہلی میں بڑھتا آئینی بحران!

قومی راجدھانی دہلی میں اروند کیجریوال حکومت اور لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ کے درمیان ٹکراؤ کے سبب آئینی بحران کے حالات پیدا ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ گیند اب صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی کے پالے میں ہے۔ یہ تنازعہ چھٹی پر گئے چیف سکریٹری کی جگہ لیفٹیننٹ گورنر کے ذریعے پاور سکریٹری شکنتلا گیملن کو نگراں چیف سکریٹری مقرر کردینے سے شروع ہوا تھا۔اس تقرری پر کیجریوال حکومت نے نہ صرف احتجاج کیا بلکہ اس نے چیف سکریٹری کے دفتر پر تالا بھی جڑ دیا۔باقی کسر نجیب جنگ نے حکومت کے ذریعے تعینات کئے گئے چیف سکریٹری کی تقرری منسوخ کرکے پوری کردی۔ دہلی حکومت کے کام کاج کو لیکر منگلوار کو دہلی ہائی کورٹ نے تلخ رائے زنی کی۔ سرکار اور لیفٹیننٹ گورنر کے درمیان دائرہ اختیار کو لیکر جاری رسہ کشی پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے عدالت ہذا نے کہا کہ عوام کو ایک بہتر سرکار کی امید تھی لیکن دہلی میں یہ کیا ہورہا ہے۔ سرکار کام کاج کے بجائے افسر کا دفتر سیل کرنے میں لگی ہے۔ چیف جسٹس روہنی اور جسٹس راجیو سہائے انڈلو کی ڈویژن بنچ نے ایک عرضی پر سماعت کے دوران یہ زبانی رائے زنی کی۔ یہ باتیں اس لئے بھی بیحد اہم ہیں کیونکہ وزیر اعلی کیجریوال کی ہدایت پر پیر کے روز پرنسپل سکریٹری (سروسز) انندو مجمدار کے دفتر کو سیل کردیا گیا ہے۔ اس درمیان دہلی سرکار میں کام کررہے 20 سینئر آئی اے ایس افسر کیجریوال سرکار کے ساتھ کام کرنا نہیں چاہتے۔ انہوں نے مرکزی حکومت سے اپنے تبادلے کو کہا ہے۔ دہلی کے وزیر اعلی اور لیفٹیننٹ گورنر نے صدر سے مل کر اپنی اپنی باتیں رکھیں لیکن ابھی تک اس مسئلے کا حل نہیں نکل سکا۔ صدر پرنب مکھرجی نے اس پر مرکزی سرکار سے رائے مانگی ہے۔ صدر کی رائے طلبی کو دیکھتے ہوئے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے اس مسئلے پر اٹارنی جنرل مکل روہتکی سے بات کی ہے اور ان سے دہلی سرکار اور لیفٹیننٹ گورنر کے درمیان جاری رسہ کشی پر آئینی پوزیشن واضح کرنے کو کہا ہے۔ اٹارنی جنرل نے جو رائے راجناتھ سنگھ کو دی ہے اس کی جانکاری راشٹرپتی کو دی جائے گی۔ ریاست کے دو بڑے عہدوں پر بیٹھے افراد کے درمیان ٹکراؤ سے پیدا دہلی کی صورتحال کا اندازہ محض اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ حقیقت میں تین مہینے پہلے اسمبلی چناؤ میں عام آدمی پارٹی کو اکثریت ملنے کے بعد ہی ریاستی سرکار اور لیفٹیننٹ گورنر کے رشتے ٹھیک نہیں رہے ہیں۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ دہلی ایک مکمل ریاست نہیں ہے اور یہاں کے وزیر اعلی اور لیفٹیننٹ گورنر کے اختیارات ٹھیک سے تشریح نہیں ہیں۔ اسے لیکر آئینی ماہرین تک میں اختلاف ہے۔ مثلاً ،لوک سبھا کے سابق سکریٹری جنرل سبھاش کشپ جہاں آئین کی دفعہ239 کا حوالہ دیکر کہتے ہیں کہ لیفٹیننٹ گورنر چاہیں تو صدر راج کی سفارش کرسکتے ہیں وہیں راجیو دھون جیسے سینئر وکیل کے مطابق کیجریوال کو اپنی پسند کی افسر شاہی مقرر کرنے کا اختیار ہے۔ ظاہر ہے یہ معاملہ دو افراد کے درمیان کا نہیں ہے بلکہ قومی راجدھانی کے نظام سے وابستہ ہے۔ حالانکہ آئینی ماہرین کا خیال ہے کہ اس کے چلتے نجیب جنگ کا پلڑا کافی بھاری ہے۔ کیونکہ دہلی کو مکمل ریاست کا درجہ نہیں دیا گیا ہے۔ ایسے میں یہاں منتظم لیفٹیننٹ گورنر ہی ہے جس کا فیصلہ آخری ہوتا ہے۔ ہمیں لگتا ہے تنازعات کو پیدا کرنے میں ماہر کیجریوال سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت ایسے اشو اٹھا رہے ہیں تاکہ دہلی میں آئینی بحران کھڑا ہو۔49 دن کی سرکار میں بھی انہوں نے ایسا ہی کیا تھا۔ ہمیں لگتا ہے کیجریوال اپنے آپ کو دیگر وزیر اعلی ، یوپی کے اکھلیش، ہریانہ کے کھٹر وغیرہ کے برابر سمجھتے ہیں۔وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان ریاستوں میں حالات الگ ہیں دہلی کی صورتحال الگ ہے کیونکہ دہلی ایک مکمل ریاست نہیں ہے اس لئے یہاں وزیر اعلی کے اختیار بھی محدود ہیں۔ حالات اور نہ بگڑیں اس کے لئے ضروری ہے وزیر اعلی اور لیفٹیننٹ گورنر کے اختیارات کی ٹھیک سے تشریح کی جائے تاکہ دونوں ایک دوسرے کے دائرہ اختیار کی خلاف ورزی نہ کریں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟